یہ جور اہل عزا پر مزید کرتے رہے

یہ جور اہل عزا پر مزید کرتے رہے
ستم شعار محرم میں عید کرتے رہے


ہمارے دم سے رہا دور بادہ پیمائی
کہ اپنے خون سے ہم مے کشید کرتے رہے


گلہ تو یہ ہے کہ جتنے امیر شہر ہوئے
غریب شہر کو سب نا امید کرتے رہے


کیا ہے ہم نے ہمیشہ ہی کاروبار زیاں
کہ سستا بیچ کے مہنگا خرید کرتے رہے


کسی سے شہر خموشاں میں کہتے سنتے کیا
ہم اپنے آپ سے گفت و شنید کرتے رہے


وہ زیر خنجر قاتل نہ تھا گلو کوئی
وہ اک خیال تھا جس کو شہید کرتے رہے


مرا کلام تو کیا ناقدین فن محسنؔ
کلام حق میں بھی قطع و برید کرتے رہے