رستے میں کوئی آ کے عناں گیر ہو نہ جائے

رستے میں کوئی آ کے عناں گیر ہو نہ جائے
یہ جذبۂ جنوں مرا زنجیر ہو نہ جائے


اس کو جو اب کسی سے شکایت نہیں رہی
پھر کیوں وہ سب سے مل کے بغل گیر ہو نہ جائے


میں نے زبان دی ہے تو لب وا کروں گا کیا
لیکن زبان خلق سے تشہیر ہو نہ جائے


منظر یہ حشر خیز جو پیش نگاہ ہے
ڈرتا ہوں میرے خواب کی تعبیر ہو نہ جائے


آنکھوں میں بس گئی ہے وہ تصویر اس طرح
میری نگاہ شوق بھی تصویر ہو نہ جائے


محسنؔ نہ جانے صبح نمودار ہوگی کب
یہ شام بے چراغ ہی تقدیر ہو نہ جائے