امید کوئی نہیں آسرا بھی کوئی نہیں
امید کوئی نہیں آسرا بھی کوئی نہیں
دوا بھی کوئی نہیں اب دعا بھی کوئی نہیں
کچھ اتنے ہو گئے بیزار اپنے حال سے لوگ
کہ اپنے حال پہ اب سوچتا بھی کوئی نہیں
بتائے کون وہاں کیا گزر گئی کس پر
کہ اس دیار سے آیا گیا بھی کوئی نہیں
حصار جاں کے وہ اس پار ہی تو رہتا ہے
فقط ہے شرط سفر فاصلا بھی کوئی نہیں
گزر ہوا جو کبھی اس سے مل لئے ورنہ
سوال اس سے کجا مدعا بھی کوئی نہیں
مرے سخن نے مجھے روشناس سب سے کیا
وگرنہ چہرے سے پہچانتا بھی کوئی نہیں
ہمیں نے خود پہ کئے بند سارے در محسنؔ
نکلنا چاہیں تو اب راستا بھی کوئی نہیں