یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے
یہ ہیں جو آستین میں خنجر کہاں سے آئے
تم سیکھ کر یہ خوئے ستم گر کہاں سے آئے
جب تھا محافظوں کی نگہبانیوں میں شہر
قاتل فصیل شہر کے اندر کہاں سے آئے
کیا پھر مجھے یہ اندھے کنویں میں گرائیں گے
بن کر یہ لوگ میرے برادر کہاں سے آئے
یہ دشت بے شجر ہی جو ٹھہرا تو پھر یہاں
سایہ کسی شجر کا میسر کہاں سے آئے
اسلوب میرا سیکھ لیا تم نے کس طرح
لہجے میں میرا ڈھب مرے تیور کہاں سے آئے
ماضی کے آئینوں پہ جلا کون کر گیا
پیش نگاہ پھر وہی منظر کہاں سے آئے
دور خزاں میں کیسے پلٹ کر بہار آئی
پژمردہ شاخ پر یہ گل تر کہاں سے آئے
محسنؔ اس اختصار پہ قربان جائیے
کوزے میں بند ہو کے سمندر کہاں سے آئے