Mohsin Bhopali

محسنؔ بھوپالی

محسنؔ بھوپالی کی غزل

    ابھی کچھ اور بھی گرد و غبار ابھرے گا

    ابھی کچھ اور بھی گرد و غبار ابھرے گا پھر اس کے بعد مرا شہ سوار ابھرے گا سفینہ ڈوبا نہیں ہے نظر سے اوجھل ہے مجھے یقین ہے پھر ایک بار ابھرے گا پڑی بھی رہنے دو ماضی پہ مصلحت کی راکھ کریدنے سے فقط انتشار ابھرے گا ہمارے عہد میں شرط شناوری ہے یہی ہے ڈوبنے پہ جسے اختیار ابھرے گا شب ...

    مزید پڑھیے

    جام تہی قبول نہ تھا غم سمو لیے

    جام تہی قبول نہ تھا غم سمو لیے پھولوں کے انتظار میں کانٹے چبھو لیے محرومیٔ دوام بھی کیا لطف دے گئی یہ سوچ کر ہنسے ہیں کہ اک عمر رو لیے ہم ہیں وہ سادہ لوح کہ پا کر رضائے دوست خود اپنے ہاتھ اپنے ہی خوں میں ڈبو لیے جس سمت سے بھی بانگ جرس آئی دشت میں دیوانگان شوق اسی سمت ہو ...

    مزید پڑھیے

    بنائے عشق ہے بس استوار کرنے تک

    بنائے عشق ہے بس استوار کرنے تک فلک کو چین کہاں پھر غبار کرنے تک یہ کب کہا کہ بھروسا نہیں ہے وعدے پر میں جی سکوں گا ترا انتظار کرنے تک خبر نہ تھی وہ مجھے قتل کرنے آیا ہے میں اس کو دوست سمجھتا تھا وار کرنے تک پھر اس کے بعد کہاں امتیاز دامن و دل جنوں ہے شوق فقط اختیار کرنے تک وہ ...

    مزید پڑھیے

    دوستو بارگہہ قتل سجاتے جاؤ

    دوستو بارگہہ قتل سجاتے جاؤ قرض ہے رشتۂ جاں قرض چکاتے جاؤ رہے خاموش تو یہ ہونٹ سلگ اٹھیں گے شعلۂ فکر کو آواز بناتے جاؤ اپنی تقدیر میں صحرا ہے تو صحرا ہی سہی آبلہ پاؤ! نئے پھول کھلاتے جاؤ زندگی سایۂ دیوار نہیں دار بھی ہے زیست کو عشق کے آداب سکھاتے جاؤ بے ضمیری ہے سرافراز تو غم ...

    مزید پڑھیے

    تو کبھی خود کو بے خبر تو کر

    تو کبھی خود کو بے خبر تو کر اپنی جانب بھی اک نظر تو کر غلط انداز اک نگاہ سہی میری ہستی کو معتبر تو کر وقفۂ عمر ہے کہ عرصۂ حشر اس مسافت کو مختصر تو کر رہبری کا بھرم بھی رکھ لوں گا مجھ کو مانوس رہ گزر تو کر آئنہ آئنہ ترا پرتو آئنہ آئنہ گزر تو کر میں نے جس طرح زیست کاٹی ہے ایک دن ...

    مزید پڑھیے

    ہے وجہ تماشائے جہاں دل شکنی بھی

    ہے وجہ تماشائے جہاں دل شکنی بھی منظور ہے اے دوست! یہ نیزے کی انی بھی شاداب درختوں کے بھی سائے ہیں گریزاں اک جرم ہوئی میری غریب الوطنی بھی پیتے ہی رہے گردش ایام کے ہاتھوں صہبائے ملامت بھی غم طعنہ زنی بھی سوچا تھا کہ اس بزم میں خاموش رہیں گے موضوع سخن بن کے رہی کم سخنی بھی اے ...

    مزید پڑھیے

    اہتمام رسن و دار سے کیا ہوتا ہے

    اہتمام رسن و دار سے کیا ہوتا ہے جس قدر ظلم بڑھے عزم سوا ہوتا ہے صوت و آہنگ ہی پیرایۂ اظہار نہیں بے نوائی میں بھی انداز نوا ہوتا ہے غم زدو دائرۂ غم سے نکل کر دیکھو درد سے درد کا احساس بڑا ہوتا ہے اتنے بدلے گئے آداب کہ اب محفل میں دل کی دھڑکن پہ بھی احساس سزا ہوتا ہے روش وقت سے ...

    مزید پڑھیے

    عظمت فن کے پرستار ہیں ہم

    عظمت فن کے پرستار ہیں ہم یہ خطا ہے تو خطاوار ہیں ہم جہد کی دھوپ ہے ایمان اپنا منکر سایۂ دیوار ہیں ہم جانتے ہیں ترے غم کی قیمت مانتے ہیں کہ گنہ گار ہیں ہم اس کو چاہا تھا کبھی خود کی طرح آج خود اپنے طلب گار ہیں ہم اہل دنیا سے شکایت نہ رہی وہ بھی کہتے ہیں زیاں کار ہیں ہم کوئی منزل ...

    مزید پڑھیے

    زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا

    زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا اپنی تخلیق سے میں داد ہنر کیا لیتا وہ کسی اور تسلسل میں رہا محو کلام میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا اس کو فرصت ہی نہ تھی ناز مسیحائی سے اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا ایک آواز پہ مقسوم تھا چلتے رہنا بے تعین تھا سفر رخت سفر کیا ...

    مزید پڑھیے

    حقائق کو بھلانا چاہتے ہیں

    حقائق کو بھلانا چاہتے ہیں کوئی رنگیں فسانہ چاہتے ہیں بدن پر اوڑھ کر گرد مسافت غم منزل چھپانا چاہتے ہیں گئی شب کی روپہلی ساعتوں کو نئی دھج سے سجانا چاہتے ہیں پرندوں کو نہ پتھر سے اڑاؤ مسافر ہیں ٹھکانا چاہتے ہیں کشادہ سائباں سب کے لیے ہو رعایت سب اٹھانا چاہتے ہیں نسیم صبح ہو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4