زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا

زخم خوردہ تو اسی کا تھا سپر کیا لیتا
اپنی تخلیق سے میں داد ہنر کیا لیتا


وہ کسی اور تسلسل میں رہا محو کلام
میری باتوں کا بھلا دل پہ اثر کیا لیتا


اس کو فرصت ہی نہ تھی ناز مسیحائی سے
اپنے بیمار کی وہ خیر خبر کیا لیتا


ایک آواز پہ مقسوم تھا چلتے رہنا
بے تعین تھا سفر رخت سفر کیا لیتا


ساز لب گنگ تھے بے نور تھی قندیل نظر
ایسے ماحول میں الزام ہنر کیا لیتا


بے نیازانہ رہا اپنی روش پر محسنؔ
شب پرستوں سے بھلا فال سحر کیا لیتا