Mohsin Bhopali

محسنؔ بھوپالی

محسنؔ بھوپالی کی غزل

    چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری

    چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری ذات کدے میں پہروں باتیں ...

    مزید پڑھیے

    نگار صبح درخشاں سے لو لگائے ہوئے

    نگار صبح درخشاں سے لو لگائے ہوئے ہیں اپنے دوش پہ اپنی صلیب اٹھائے ہوئے گزر رہے ہیں دبے پاؤں وقت کی مانند فراز دار پہ اپنی نظر جمائے ہوئے صلہ ملے نہ ملے خون دل چھڑکتے چلیں ہر ایک خار ہے دست طلب بڑھائے ہوئے وہ اب بھی سایۂ ابر رواں کو تکتے ہیں جنہیں زمانہ ہوا اپنا گھر جلائے ...

    مزید پڑھیے

    کیا ضروری ہے اب یہ بتانا مرا

    کیا ضروری ہے اب یہ بتانا مرا ٹوٹتی شاخ پر تھا ٹھکانا مرا غم نہیں اب ملی ہیں جو تنہائیاں انجمن انجمن تھا فسانہ مرا جو بھی آیا ہدف پر وہ کب بچ سکا چوکتا ہی نہیں تھا نشانہ مرا اک زمانہ کبھی تھا مرا ہم نوا تم نے دیکھا کہاں وہ زمانہ مرا ارض بھوپال سے تھا تعلق کبھی اب تو سب کچھ ہے یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4