Mohammad Wasiq Nadeem

محمد واثق ندیم

  • 1973

محمد واثق ندیم کی غزل

    جب طوائف شاہ کی رانی ہوئی

    جب طوائف شاہ کی رانی ہوئی گھنگھرؤں کی نظر سلطانی ہوئی تیرے دم سے گھر تھا جنت کی مثال تو گیا جنگل سی ویرانی ہوئی آج تک دنیا نہ دے پائی مثال قرن اول میں وہ سلطانی ہوئی دیکھیے انسان کی فرعونیت بادشاہی ظل سبحانی ہوئی برف جیسی تھی ہماری زندگی لمحہ لمحہ گھل گئی پانی ہوئی بیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    مقتل کا میرے گھر سے بہت فاصلہ نہیں

    مقتل کا میرے گھر سے بہت فاصلہ نہیں ہوں مطمئن کہ سچ سے کوئی واسطہ نہیں اک وقت وہ کہ دیکھے بنا چین ہی نہ تھا اک وقت یہ کہ اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے ستیہ میو جیتے کی تختی لگی ہوئی سچائی یہ کہ سچ کا وہاں داخلہ نہیں ماضی کی بات چھوڑ دے رکھ حال پر نظر اب وہ خلیل خاں بھی نہیں فاختہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہر بات کو آخر وہاں رد ہونا ہے

    اپنی ہر بات کو آخر وہاں رد ہونا ہے وہ جو بولیں انہیں باتوں کو سند ہونا ہے اک محل اور بنا لو کہ ہواؤں میں اڑو آخری گھر تو وہ دو گز کی لحد ہونا ہے اور کچھ روز یوں ہی صبر کئے جا اے دل ان کے انداز تغافل کی بھی حد ہونا ہے سرفرازی کی سعادت ہے مرے حصے میں اس ترقی پہ حریفوں کو حسد ہونا ...

    مزید پڑھیے

    گفتگو کرتے رہو رات گزر جائے گی

    گفتگو کرتے رہو رات گزر جائے گی نور کی کوئی کرن دل میں اتر جائے گی نوجواں قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں تم جو بکھرے تو میاں قوم بکھر جائے گی ظرف والا کسی کم ظرف کا احساں لے کر زندگی لاکھ جئے روح تو مر جائے گی موج خوں سر سے گزرتی ہے گزر جانے دے کم سے کم قوم کو بیدار تو کر جائے گی اپنی ...

    مزید پڑھیے