جب طوائف شاہ کی رانی ہوئی
جب طوائف شاہ کی رانی ہوئی
گھنگھرؤں کی نظر سلطانی ہوئی
تیرے دم سے گھر تھا جنت کی مثال
تو گیا جنگل سی ویرانی ہوئی
آج تک دنیا نہ دے پائی مثال
قرن اول میں وہ سلطانی ہوئی
دیکھیے انسان کی فرعونیت
بادشاہی ظل سبحانی ہوئی
برف جیسی تھی ہماری زندگی
لمحہ لمحہ گھل گئی پانی ہوئی
بیٹھے بیٹھے آ گیا ان کا خیال
فکر کی سادہ قبا دھانی ہوئی
چونک اٹھا نیند میری اڑ گئی
جب سنی آواز پہچانی ہوئی
چھوڑ دی واثقؔ کتاب آگہی
تب تو جینے میں پریشانی ہوئی