اپنی ہر بات کو آخر وہاں رد ہونا ہے
اپنی ہر بات کو آخر وہاں رد ہونا ہے
وہ جو بولیں انہیں باتوں کو سند ہونا ہے
اک محل اور بنا لو کہ ہواؤں میں اڑو
آخری گھر تو وہ دو گز کی لحد ہونا ہے
اور کچھ روز یوں ہی صبر کئے جا اے دل
ان کے انداز تغافل کی بھی حد ہونا ہے
سرفرازی کی سعادت ہے مرے حصے میں
اس ترقی پہ حریفوں کو حسد ہونا ہے
اس نئے دور کی لیلیٰ بھی جنوں پیشہ نہیں
لازمہ قیس کے جذبوں میں خرد ہونا ہے
سخت حالات جو آئیں تو بھروسہ رکھنا
اس کے دربار سے آخر کو مدد ہونا ہے
شعر کہنے کا سلیقہ تو ہے لیکن واثقؔ
ہم سے شاعر کو نہ غالبؔ نہ اسدؔ ہونا ہے