Mohammad Saleem Nashtar

محمد سلیم نشتر

  • 1951

محمد سلیم نشتر کی غزل

    وقت کے خداؤں میں کیسی ہوشیاری ہے

    وقت کے خداؤں میں کیسی ہوشیاری ہے بھیس ہیں امیروں کے ذہنیت بھکاری ہے خود بخود نہیں حائل نفرتوں کی دیواریں کچھ خطا تمہاری تھی کچھ خطا ہماری ہے لاکھ میں شہادت دوں کوئی کیوں یہ مانے گا شمس نے مرے گھر میں تیرگی اتاری ہے کر لیا سبھی نے طے مجھ کو تو رلانے کا اک ہنسی پہ میری تو سب کو ...

    مزید پڑھیے

    الٰہی توبہ دنیا میں یہ کیسا انقلاب آیا

    الٰہی توبہ دنیا میں یہ کیسا انقلاب آیا یہاں کوئی نہیں اپنا عزیزوں کا جواب آیا مرے نظارۂ پر شوق کی تکمیل کیا ہوتی ادھر پلکوں نے جنبش کی ادھر رخ پر نقاب آیا اسی کی دید کی خاطر رہی ہیں منتظر آنکھیں جو فتنہ گر رخ پر نور پر ڈالے نقاب آیا خموشی ہی فقط ہے داستاں اپنی دل مضطر فریب ...

    مزید پڑھیے

    اس کے رنگ میں رنگی گزر جائے

    اس کے رنگ میں رنگی گزر جائے زندگی پھر مری سنور جائے زندگی موت کی امانت ہے پھر بھلا کوئی کیوں مکر جائے زندگی اک دھویں کا مرغولہ جب ہوا تیز ہو بکھر جائے اس نے معراج زندگی پائی جو خدا کی رضا میں مر جائے مستحق لوگ ہاتھ ملتے ہیں اور گداگر کی جھولی بھر جائے گر ہدایت نہ ہو تری مجھ ...

    مزید پڑھیے

    سر سے باندھے کفن نکلتا ہوں

    سر سے باندھے کفن نکلتا ہوں گود میں موت کی میں پلتا ہوں راستہ ہر گھڑی بدلتا ہوں میں ندی کی طرح مچلتا ہوں بھول جاتا ہوں سب ستم ان کے اک تبسم سے میں بہلتا ہوں وہ تو ملتے نہیں ہیں مل کے بھی ہجر کی آگ میں میں جلتا ہوں تو ہی ہم راہ میرے در پردہ ورنہ گر کے میں کیوں سنبھلتا ہوں چال وہ ...

    مزید پڑھیے