وقت کے خداؤں میں کیسی ہوشیاری ہے
وقت کے خداؤں میں کیسی ہوشیاری ہے
بھیس ہیں امیروں کے ذہنیت بھکاری ہے
خود بخود نہیں حائل نفرتوں کی دیواریں
کچھ خطا تمہاری تھی کچھ خطا ہماری ہے
لاکھ میں شہادت دوں کوئی کیوں یہ مانے گا
شمس نے مرے گھر میں تیرگی اتاری ہے
کر لیا سبھی نے طے مجھ کو تو رلانے کا
اک ہنسی پہ میری تو سب کو بے قراری ہے
قہقہے ہوں آنسو ہوں چاہے سکھ ہوں یا دکھ ہوں
میری جھونپڑی مجھ کو ہر طرح سے پیاری ہے
دشمنوں کی محفل میں لے چلا مجھے یہ دل
مجھ پہ اے خدا کیسی بے بسی یہ طاری ہے
اک ذرا سا غم نشترؔ کیوں بھلا نہ راس آیا
پھول نے تو کانٹوں میں زندگی گزاری ہے