اس کے رنگ میں رنگی گزر جائے

اس کے رنگ میں رنگی گزر جائے
زندگی پھر مری سنور جائے


زندگی موت کی امانت ہے
پھر بھلا کوئی کیوں مکر جائے


زندگی اک دھویں کا مرغولہ
جب ہوا تیز ہو بکھر جائے


اس نے معراج زندگی پائی
جو خدا کی رضا میں مر جائے


مستحق لوگ ہاتھ ملتے ہیں
اور گداگر کی جھولی بھر جائے


گر ہدایت نہ ہو تری مجھ کو
تیرا دیوانہ پھر کدھر جائے


یہ علامت بھی ہے منافق کی
وعدہ کرکے بھی جو مکر جائے


زندگی زندگی نہیں نشترؔ
جو فقط کھیل میں گزر جائے