الٰہی توبہ دنیا میں یہ کیسا انقلاب آیا
الٰہی توبہ دنیا میں یہ کیسا انقلاب آیا
یہاں کوئی نہیں اپنا عزیزوں کا جواب آیا
مرے نظارۂ پر شوق کی تکمیل کیا ہوتی
ادھر پلکوں نے جنبش کی ادھر رخ پر نقاب آیا
اسی کی دید کی خاطر رہی ہیں منتظر آنکھیں
جو فتنہ گر رخ پر نور پر ڈالے نقاب آیا
خموشی ہی فقط ہے داستاں اپنی دل مضطر
فریب زندگی کھایا الم بھی بے حساب آیا
وہ اظہار محبت پر مرے گھبرا کے یوں بولے
فلک نے کیا ستم ڈھایا خدایا کیا عذاب آیا
جلن سے غیر کے چہرے کی رنگت اڑ گئی نشترؔ
ابھی خالی ہمارے ہاتھ میں جام شراب آیا