سر سے باندھے کفن نکلتا ہوں

سر سے باندھے کفن نکلتا ہوں
گود میں موت کی میں پلتا ہوں


راستہ ہر گھڑی بدلتا ہوں
میں ندی کی طرح مچلتا ہوں


بھول جاتا ہوں سب ستم ان کے
اک تبسم سے میں بہلتا ہوں


وہ تو ملتے نہیں ہیں مل کے بھی
ہجر کی آگ میں میں جلتا ہوں


تو ہی ہم راہ میرے در پردہ
ورنہ گر کے میں کیوں سنبھلتا ہوں


چال وہ چل گئے قیامت کی
بیکسی پر میں ہاتھ ملتا ہوں


درد سے کہہ رہا ہے یہ نشتر
تو اب آرام کر میں چلتا ہوں