Mohammad Sadiq Jameel

محمد صادق جمیل

محمد صادق جمیل کی غزل

    اس قدر بڑھ گئی عدم برداشت

    اس قدر بڑھ گئی عدم برداشت خود کو بھی اب نہیں ہیں ہم برداشت ہم نے برداشت جیسے کی دنیا اہل دنیا کریں گے کم برداشت مسکرا کر ہمیں پلا تو سہی مسکرا کر کریں گے سم برداشت کرتے ہو اس لئے ستم شاید ہم سے ہوگا نہیں کرم برداشت ایک خالق کو ماننے والے کس طرح کر گئے صنم برداشت جن کو پتھر ...

    مزید پڑھیے

    اس شہر میں حسین تھے جتنے بڑے بڑے

    اس شہر میں حسین تھے جتنے بڑے بڑے پتھر ہوئے ہیں راہ میں اس کی کھڑے کھڑے منہ لگ نہ ہم چراغوں کے اے سر پھری ہوا دیکھے ہیں ہم نے تجھ سے بھی دشمن بڑے بڑے جو لوگ ایک دوجے پہ کرتے تھے جاں نثار کس کی نظر لگی ہے کہ سب ہیں لڑے لڑے کب میں نے یہ کہا ہے کہ بیٹھو مرے قریب بس دیکھ جاؤ دور سے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے روٹی میسر اگر ہوا تو ہے

    نہیں ہے روٹی میسر اگر ہوا تو ہے خدا کا شکر کہ کھانے کو کچھ بچا تو ہے نہ بادبان نہ کشتی کا ناخدا کوئی میں مطمئن ہوں محافظ مرا خدا تو ہے یہ اور بات نہ ارسال کر سکوں تم کو تمہارے نام مگر ایک خط لکھا تو ہے اسی کے نام کی تختی لگائی ہے دل پر مقیم اس میں وہ آخر کبھی رہا تو ہے کھلا جو ...

    مزید پڑھیے

    امن کی خاطر جنگی منظر دفن کیا

    امن کی خاطر جنگی منظر دفن کیا میں نے شیشہ اس نے پتھر دفن کیا پہلے ایک دبائی فائل یادوں کی رفتہ رفتہ سارا دفتر دفن کیا ننھے پھول کا بوجھ ہی کتنا ہوتا ہے لیکن سارے شہر نے مل کر دفن کیا میری آنکھیں بنجر ہونے والی تھیں ان میں جب کل رات سمندر دفن کیا پہلے قبر بنائی سارے خوابوں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی ہی لاش پہ ہیں اشک بہائے ہوئے لوگ

    اپنی ہی لاش پہ ہیں اشک بہائے ہوئے لوگ ہم ہیں یک طرفہ محبت کے ستائے ہوئے لوگ میں تھا نادان نہ بس پایا جہاں میں لیکن کیوں پریشان ہیں یہ تیرے بسائے ہوئے لوگ توڑ دیتی ہے ہمیں سانس کی بے ترتیبی خواہ مخواہ ہاتھوں میں پتھر ہیں اٹھائے ہوئے لوگ خود پہ ہنستا ہوں بہت جب میں انہیں دیکھتا ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پاس ہے ایک حوالہ مٹی کا

    اپنے پاس ہے ایک حوالہ مٹی کا کچے گھر میں خشک پیالہ مٹی کا پھول سجے ہیں شیشے کے گل دانوں میں لیکن میں ہوں چاہنے والا مٹی کا وہ دن بھی کچھ دور نہیں ہے جب مخلوق بن جائے گی ایک نوالہ مٹی کا میں نے اک دو اشک گرائے مٹی پر دیکھا پھر اک روپ نرالا مٹی کا بیچ رہا تھا گھر جنت میں مٹی ...

    مزید پڑھیے

    ایک دو تین چار سلسلہ وار

    ایک دو تین چار سلسلہ وار اٹھ گئے سارے یار سلسلہ وار کاش کھلتے رہیں ہمیشہ پھول کاش آئے بہار سلسلہ وار ان پہ مرنا نہ ایک بار میاں جان کرنا نثار سلسلہ وار دھیرے دھیرے میں ہوش میں آیا میرا ٹوٹا خمار سلسلہ وار میں نے کھائے ہیں تیر رہ رہ کر میں ہوا ہوں فگار سلسلہ وار ہر کوئی روشنی ...

    مزید پڑھیے