نہیں ہے روٹی میسر اگر ہوا تو ہے
نہیں ہے روٹی میسر اگر ہوا تو ہے
خدا کا شکر کہ کھانے کو کچھ بچا تو ہے
نہ بادبان نہ کشتی کا ناخدا کوئی
میں مطمئن ہوں محافظ مرا خدا تو ہے
یہ اور بات نہ ارسال کر سکوں تم کو
تمہارے نام مگر ایک خط لکھا تو ہے
اسی کے نام کی تختی لگائی ہے دل پر
مقیم اس میں وہ آخر کبھی رہا تو ہے
کھلا جو پھول تو خوشبو نکل گئی ساری
بھرے چمن میں کوئی حادثہ ہوا تو ہے
خدا کرے کہ یہ اب ان کے شہر سے گزرے
ہوا کے دوش پہ مکتوب اک رکھا تو ہے
وہ میرے نام پہ صادق جمیلؔ یوں بولے
بھلا سا نام یہ میں نے کہیں سنا تو ہے