اپنی ہی لاش پہ ہیں اشک بہائے ہوئے لوگ

اپنی ہی لاش پہ ہیں اشک بہائے ہوئے لوگ
ہم ہیں یک طرفہ محبت کے ستائے ہوئے لوگ


میں تھا نادان نہ بس پایا جہاں میں لیکن
کیوں پریشان ہیں یہ تیرے بسائے ہوئے لوگ


توڑ دیتی ہے ہمیں سانس کی بے ترتیبی
خواہ مخواہ ہاتھوں میں پتھر ہیں اٹھائے ہوئے لوگ


خود پہ ہنستا ہوں بہت جب میں انہیں دیکھتا ہوں
بن کے بیٹھے ہیں خدا میرے بنائے ہوئے لوگ


گر بھی جائے جو یہ دیوار تو سایہ دے گی
اس یقیں پر ہیں یہاں ڈیرا لگائے ہوئے لوگ


حسن کی حد سے کہیں آگے ہے تیرا جلوہ
تیری دہلیز پہ یوں ہی نہیں آئے ہوئے لوگ


ایسے شاگرد کہ استاد نظر آتے ہیں
اے زمانے ترے ہاتھوں کے پڑھائے ہوئے لوگ


نشۂ تاجوری میں ہیں جو مدہوش جمیلؔ
ان سے بہتر ہیں تری بزم میں آئے ہوئے لوگ