Mohammad Naved Athar

محمد نوید اطہر

  • 1989

محمد نوید اطہر کی غزل

    کسی کی مہربانی ہو رہی ہے

    کسی کی مہربانی ہو رہی ہے غزل کی ترجمانی ہو رہی ہے جفا تو مورد الزام ٹھہری وفا بھی پانی پانی ہو رہی ہے ترا انگڑائیاں لینا بھی جانم قیامت کی نشانی ہو رہی ہے چمن ویران ہوتا جا رہا ہے یہ کیسی باغبانی ہو رہی ہے کوئی روتا ہے میری بے بسی پر کسی کو شادمانی ہو رہی ہے نوید اطہرؔ کسی پہ ...

    مزید پڑھیے

    عشق اظہار تک نہیں پہنچا

    عشق اظہار تک نہیں پہنچا سلسلہ پیار تک نہیں پہنچا خط کا اپنے جواب کیا آتا نامہ بر یار تک نہیں پہنچا سب کو دعویٰ تھا غم گساری کا کوئی بیمار تک نہیں پہنچا رعب ان کا جو دل پہ طاری تھا ہاتھ رخسار نہیں پہنچا سرفروشی کا عزم اے اطہرؔ تختۂ دار تک نہیں پہنچا

    مزید پڑھیے

    یہ کس عالم میں اپنے گھر گئے ہم

    یہ کس عالم میں اپنے گھر گئے ہم تری محفل سے چشم تر گئے ہم شرافت ہے کہ غصہ تھوک ڈالا نہ سمجھو یہ کہ تم سے ڈر گئے ہم ہوا ہے باعث لطف و کرم کیا کہا اس نے کہ تم پہ مر گئے ہم زمیں باطل کے بھی پیروں سے نکلی ہتھیلی پر جو لے کے سر گئے ہم بہت پچھتائے نادانی پہ اطہرؔ سرابوں پر بھروسہ کر گئے ...

    مزید پڑھیے

    بدلے انداز تمہارے نہیں اچھے لگتے

    بدلے انداز تمہارے نہیں اچھے لگتے غیر کو چھپ کے اشارے نہیں اچھے لگتے جو بھی کہنا ہے کھلے دل سے سر عام کہو آنکھوں آنکھوں میں اشارے نہیں اچھے لگتے کچھ عمل کرکے دکھاؤ تو کوئی بات بنے آئے دن کھوکھلے نعرے نہیں اچھے لگتے ہم کو طوفاں سے الجھنے میں مزہ آتا ہے اور خاموش کنارے نہیں اچھے ...

    مزید پڑھیے