کسی کی مہربانی ہو رہی ہے
کسی کی مہربانی ہو رہی ہے
غزل کی ترجمانی ہو رہی ہے
جفا تو مورد الزام ٹھہری
وفا بھی پانی پانی ہو رہی ہے
ترا انگڑائیاں لینا بھی جانم
قیامت کی نشانی ہو رہی ہے
چمن ویران ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسی باغبانی ہو رہی ہے
کوئی روتا ہے میری بے بسی پر
کسی کو شادمانی ہو رہی ہے
نوید اطہرؔ کسی پہ جاں فدا کر
عبث رسوا جوانی ہو رہی ہے