عشق اظہار تک نہیں پہنچا

عشق اظہار تک نہیں پہنچا
سلسلہ پیار تک نہیں پہنچا


خط کا اپنے جواب کیا آتا
نامہ بر یار تک نہیں پہنچا


سب کو دعویٰ تھا غم گساری کا
کوئی بیمار تک نہیں پہنچا


رعب ان کا جو دل پہ طاری تھا
ہاتھ رخسار نہیں پہنچا


سرفروشی کا عزم اے اطہرؔ
تختۂ دار تک نہیں پہنچا