Mohammad Hameed Shahid

محمد حمید شاہد

معروف پاکستانی فکشن نویس اور نقاد۔

محمد حمید شاہد کی رباعی

    گانٹھ

    عصبی ریشوں کے وسط میں کچھ اضافی گانٹھیں پڑ گئیں۔ یا پھر شاید ‘ پہلے سے پڑی گرہیں ڈھیلی ہو گئی تھیں کہ اضمحلال اس پر چڑھ دوڑا تھا۔ بدن ٹوٹنے اور دل ڈوبنے کا مستقل احساس ایسا تھا کہ ٹلتا ہی نہ تھا۔ کوئی بھی معالج جب خود ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے‘ تویہی مناسب خیال کرتاہے کہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    اللہ خیر کرے

    اُسے دفتر پہنچے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ محسن کو ایک عرصے کے بعدیاد آیا‘ دِل کی دھڑکن کبھی کبھی سینے سے باہر بھی اُبل پڑتی ہے۔۔۔ دَھک ‘دَھک‘ دَھک۔۔۔ یوں‘ جیسے کوئی زور زور سے میز پر مکے برسا رہا ہو۔ رات بھر کی بے آرامی آنکھوں میں چبھ ...

    مزید پڑھیے

    سجدۂ سہو

    ایکا ایکی اُسے ایسے لگا جیسے کوئی تیز خنجر اُس کی کھوپڑی کی چھت میں جا دھنسا ہو۔ اس کاپورا بدن کانپ اُٹھا۔ جسم کے ایک ایک مسام سے پسینے کے قطرے لپک کر باہر آگئے۔ اُس نے سر پر دوہتڑ مار کر لَاحَول وَلا قُوۃ کہا۔ عین اُس لمحے اُس کے ذِہن کی سکرین پر اپنے ایک سالہ سعیدے اور اس کی ماں ...

    مزید پڑھیے

    جنم جہنم-۱

    ’’یہ جو نظر ہے نا! منظر چاہتی ہے۔ اور یہ جو منظر ہے نا! اَپنے وجود کے اِعتبار کے لیے ناظر چاہتا ہے۔ دِیکھنے اور دِیکھے جانے کی یہ جو اشتہا ہے نا! یہ فاصلوں کو پاٹتی ہے۔ اور فاصلوں کا وجود جب معدوم ہو جاتا ہے نا! تو جہنم وجود میں آتا ہے۔ اور اس جہنم میں اِیذا کوئی اور نہیں دیتا‘ ...

    مزید پڑھیے

    سورگ میں سور

    جب سے تھوتھنیوں والے آئے ہیں‘ دکھ موت کی اَذِیّت سے بھی شدید اور سفاک ہو گئے ہیں۔ تاہم ایک زمانہ تھا ۔۔۔ اور وہ زمانہ بھی کیا خوب تھا کہ ہم دُکھ کے شدید تجربے سے زِندگی کی لذّت کشید کیا کرتے ۔ اس لذّت کا لپکا اور چسکا ایسا تھا کہ خالی بکھیوں کے بھاڑ میں بھوک کے بھڑ بھونجے چھولے تڑ ...

    مزید پڑھیے

    رکی ہوئی زندگی

    وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا، ندیدہ ہو کر۔ عاطف اسے دِیکھ رہا تھا، ہک دَک۔ کراہت کاگولا پیٹ کے وسط سے اُچھل اُچھل کر اس کے حلقوم میں گھونسے مار رہا تھا، یوں کہ اسے ہر نئے وار سے خود کو بچانے کے لیے دِھیان اِدھر اُدھر بہکانا اور بہلانا پڑتا۔ وہ بھوکا تھا۔ شاید بہت ہی بھوکا، کہ سالن کی ...

    مزید پڑھیے

    جنم جہنم-۳

    اور وہ کہ جس کے چہرے پر تھوک کی ایک اور تہہ جم گئی تھی۔ اُس کی سماعتوں سے تھوک کر چلی جانے والی کے قہقہوں کی گونج اَبھی تک ٹکرا رہی تھی وہ اُٹھا۔ بڑ بڑایا۔ ’’جہنم۔ لعنت‘‘ پھر اَپنے وجود پر نظر ڈالی اور لڑکھڑا کر گر گیا۔ اب نگاہ اوپر کی تو نظر میں کوئی بھی نہ تھا‘ جو سما رہا ہو وہ ...

    مزید پڑھیے

    مرگ زار

    وہ دھند میں ڈوبی ہوئی ایک صبح تھی ۔ مری میں میری پوسٹنگ کو چند ہی روز گزرے تھے اور جتنی صبحیں میں نے اس وقت تک دیکھی تھیں سب ہی دھند میں لپٹی ہوئی تھیں ۔ کلڈنہ روڈ پر ہمارا دفتر تھا ۔ ابھی مجھے گھر نہیں ملا تھا لہذا میں روزانہ پنڈی سے یہاں آیا کرتا تھا گزشتہ ہفتے کے آخری تین روز تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4