Mohammad Hameed Shahid

محمد حمید شاہد

معروف پاکستانی فکشن نویس اور نقاد۔

محمد حمید شاہد کے تمام مواد

3 مضمون (Articles)

    زمینیں اور زمانے، مبین مرزا کے افسانے

    مبین مرزا کی دس کہانیوں کے تازہ پراگے ’’زمینیں اور زمانے‘‘ پر بات کا آغاز، مبین ہی کے ایک افسانے ’’یخ رات کا ٹکڑا‘‘ سے ایک ٹکڑا مقتبس کرکے کرتا ہوں، ’’میں نے اکثر کہانیوں میں دیکھا ہے کہ زندگی ہی کی طرح اُن میں بھی بڑی بے حسی کے ساتھ وہ لوگ عزت دار بن کر بڑے مقام پر آبیٹھے ...

    مزید پڑھیے

    پاکستان میں اردو ادب کے ستر سال

    جن دنوں پورے برصغیر کا مسلمان ایک الگ وطن کا خواب دیکھ رہا تھا، یہاں کا ترقی پسند ادیب اپنے ہی ڈھب سے سوچ رہا تھا۔ ایک الگ وطن کا خیال اس کے لہو میں کسی قسم کا جوش پیدا نہیں کر رہا تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد ادھر بھی، اور ادھر بھی ترقی پسندوں نے نئے نئے موضوعات کا در اردو ادب پر ...

    مزید پڑھیے

    اردو افسانے کا مابعد الطبیعیاتی آہنگ

    جس موضوع پر مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی ہے، اس پر سوچتے ہی میرے ذہن میں ایک جھپاکا سا ہوا اور کوئی انتالیس چالیس سال پرانی ایک تحریر روشن ہوتی چلی گئی۔ جی، جو مجھے یاد آرہی تھی اسے محمد حسن عسکری نے لکھا تھا۔ مجھے اس کا عنوان بہت عجیب لگا تھا، ’بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے ‘ ...

    مزید پڑھیے

38 افسانہ (Story)

    بند آنکھوں سے پرے

    راحیل کو زِندگی میں پہلی مرتبہ اَپنی بے بسی پر ترس آیا۔ کل شام تک وہ اَپنی قسمت پر نازاں تھا۔ کون سی نعمت تھی‘ جو اس کا مقدّر نہ ٹھہری تھی۔ یہ جو تتلی جیسی بچی نایاب اور پھولوں جیسے دو بچے نبیل اور فرخ پھلواڑی میں کھیل رہے ہیں‘ راحیل ہی کے بچے ہیں۔ کل تک وہ انہیں دیکھتا تھا تو ...

    مزید پڑھیے

    شاخ اشتہا کی چٹک

    اسے قریب نظری کا شاخسانہ کہیے یا کچھ اور کہ بعض کہانیاں لکھنے والے کے آس پاس کلبلا رہی ہوتی ہیں مگروہ ان ہی جیسی کسی کہانی کو پالینے کے لیے ماضی کی دھول میں دفن ہو جانے والے قصوں کو کھوجنے میں جتا رہتا ہے۔ تو یوں ہے کہ جن دنوں مجھے پرانی کہانیوں کا ہوکا لگا ہوا تھا ‘ مارکیز کا ...

    مزید پڑھیے

    تکلے کا گھاؤ

    کاغذ پر جُھکا قلم کمال محبت سے گزر چکے لمحوں کی خُوشبو کا متن تشکیل دینے لگتا ہے: ’’ابھی سمہ بھر پہلے تک دونوں وہ ساری باتیں کررہے تھے ٗ جو دنبل بن کر اندر ہی اندر بسیندھتی ٗ پھولتی اور گلتی رہیں یا پھر اَلکن ہو کر تتّے کورنوالے کی طرح حلق میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ تتّا کورنوالہ ٗ نہ ...

    مزید پڑھیے

    آئینے سے جھانکتی لکیریں

    میں اپنی نگہ میں سمٹ کر بھدی چھت سے پھسلتی دیوار تک آپہنچی تھی۔ میں نیچے آ رہی تھی یا دیوار اوپر اٹھ رہی تھی؟ کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو رہا تھا۔ اور جو کچھ ہو رہا تھا وہ میرے باطن کے کٹورے کو اطمینان کے شیریں پانیوں سے کناروں تک بھر رہا تھا۔ باطن کا شہر بھی عجیب ہوتا ہے۔ بدن کو گھیرتی ...

    مزید پڑھیے

    کہانی کیسے بنتی ہے

    وہ میرے پاس آئی اور مجھے کریدکرید کر پوچھنے لگی: ’’کہانی کیسے بنتی ہے؟‘‘ مجھے کوئی جواب نہ سوجھ رہا تھاکہ میرا سیل میری مدد کو آیا ۔ دوسری جانب گاؤں سے فون تھا: ’’سیموں مر گئی۔‘‘ ’’کون سیموں؟‘‘ میں نے اپنے وسوسے اوندھانے کے لیے خواہ مخواہ سوال جڑدیا۔ حالاں کہ ادھر ہمارے ...

    مزید پڑھیے

تمام