صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ دھوئے جاں سے
صغریٰ کا مرض کم نہ ہوا درماں سے آخر ہوئی بیمار تپ ہجراں سے تبدیر کی جا نوش کیا زہر اجل پاشوئی کے بدلے ہاتھ دھوئے جاں سے
ہر چشم سے چشمے کی روانی ہو جائے پھر تازہ مری مرثیہ خوانی ہو جائے فضل باری سے ہوں یہ آنسو جاری ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
آہوں سے عیاں برق فشانی ہو جائے غل رعد کا نالوں کی زبانی ہو جائے اشکوں سے جھڑی لگے وہ شہ کے غم کی ساون کی گھٹا شرم سے پانی ہو جائے
اعدا کو ادھر حرام کا مال ملا حرؔ کو اسداللہ کا ادھر لال ملا واللہ کلاہ سر عالم ہوا حرؔ حلہ ملا معصومہ کا رومال ملا
اس بزم میں ارباب شعور آئے ہیں یہ شیعہ ہیں یا آیۂ نور آئے ہیں پڑھ مرثیہ لے داد سخن ان سے دبیرؔ کیا کیا حضرات کانپور آئے ہیں