Masud Husain Khan

مسعود حسین خاں

مسعود حسین خاں کی غزل

    ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے

    ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے بہار باقی ہے زخم بہار باقی ہے یہ انتظار کی گھڑیاں کنار جوئے چشم امید ڈوب چکی اعتبار باقی ہے تمہارے رخ پہ ہیں کچھ اجنبی نظر کے نشاں تمہارے ابرو پہ ہلکا سا بار باقی ہے سنا ہے ہند کی شاداب وادیوں میں رفیق بہار آ بھی چکی ہے بہار باقی ہے عجب نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا

    ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا یعنی کہ دل کے درد کو حسن نوا کیا ہر جنبش نظر میں نہاں تیرے انقلاب مجھ کو گھٹا دیا کبھی مجھ کو سوا کیا اے کاش تیرا حسن ہی اصل حیات ہو تیری نظر سے ہم نے حقیقت کو وا کیا اس دشنۂ نظر کا بھلا اور کیا جواب ہمدم میں دل کے چاک ہی بیٹھا سیا کیا اس رہ گزر ...

    مزید پڑھیے

    تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا

    تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا کسی کی آنکھوں میں تاروں کی مسکراہٹ ہے کسی کی آنکھوں کو شبنم کا کاروبار ملا یہ میرے جیب و گریباں پہ کچھ نہیں موقوف کہ تیرا دامن رنگیں بھی تار تار ملا تری وفا نے محبت کو اعتبار دیا تری نظر سے مجھے حسن اعتبار ملا

    مزید پڑھیے

    ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا

    ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا ہزار نقش ملے کوئی راز داں نہ ملا میں سوچتا ہوں کہ یہ بھی حسین ہیں لیکن تصور رخ جاناں کا امتحاں نہ ملا یہ سچ نہیں ہے کہ چھٹنے کے بعد جان وصال تجھے زمیں نہ ملی مجھ کو آسماں نہ ملا ادائے خاص ملی اور صلائے عام ملی مگر کہیں بھی وہ انداز جان جاں نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2