عشق میں اضطراب رہتا ہے
عشق میں اضطراب رہتا ہے جی نہایت خراب رہتا ہے خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے سامنے اک سراب رہتا ہے مرحمت کا تری شمار نہیں درد بھی بے حساب رہتا ہے
عشق میں اضطراب رہتا ہے جی نہایت خراب رہتا ہے خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے سامنے اک سراب رہتا ہے مرحمت کا تری شمار نہیں درد بھی بے حساب رہتا ہے
آج بھی تشنہ لبی تشنہ لبی ہے اے دوست کیا نہ چھلکے گی جو آنکھوں میں بھری ہے اے دوست جو کمی پہلے تھی وہ پھر بھی کمی ہے اے دوست یہ جو تھوڑی سی ہنسی زیر لبی ہے اے دوست آپ کو دیکھ مرے ذوق فنا کو بھی دیکھ یہ تری شیشہ گری درد سری ہے اے دوست مئے گلفام میں کچھ درد تہ جام سہی وہ خوشی کیسی ...
ہزار بار اسے ناکامیوں نے سمجھایا مگر یہ دل تری الفت سے باز کب آیا وہی لگن ہے کہ چلئے جہاں کہیں تو ہو وہی چبھن کہ محبت سے ہم نے کیا پایا کھلے گا راز کہ آنچل کی کیا حقیقت ہے کبھی جو سر سے محبت کے یہ ڈھلک آیا گلوں کے گھاؤ بھی شبنم سے دھل سکے ہیں کبھی کہ اشک نے مرے زخموں کو اور ...
عشق میں اضطراب رہتا ہے جی نہایت خراب رہتا ہے خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے تشنگی جی کی بڑھتی جاتی ہے سامنے اک سراب رہتا ہے مرحمت کا تری شمار نہیں درد بھی بے حساب رہتا ہے تیری باتوں پہ کون لائے دلیل دل ہے سو لا جواب رہتا ہے
تیرے کھونے کا کس قدر غم ہے آج عالم تمام مبہم ہے دیکھتا ہوں نظر نہیں آتا کیسا نیرنگ چشم پر نم ہے درد ٹھہرا ہوا سا ہے دل میں سوزش غم بھی آج کم کم ہے کتنی ویرانیاں ہیں آنکھوں میں کتنا پیروں میں رقص پیہم ہے دیدہ و دل بجھے سے جاتے ہیں کیسی غم ناک شام ماتم ہے تم نے مسعودؔ کو بھی ...
مری افسردہ دلی گردش ایام سے ہے لوگ کہتے ہیں محبت کسی گلفام سے ہے چشم ساقی نے بھی یہ مشورۂ نیک دیا کہ علاج غم دل تلخیٔ بد نام سے ہے چاندنی رات میں یہ اور چمک اٹھے گا درد کچھ دل میں سوا آج سر شام سے ہے رنگ اڑایا ہے زمانے نے جہاں سے مسعودؔ اپنی نسبت بھی اسی یار گل اندام سے ہے
تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا خزاں کے درد میں زخم بہار میں کیا تھا یہ سوچنا تھا نہ ہو جائیں اس قدر مجبور یہ دیکھنا تھا ترے اختیار میں کیا تھا لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے مگر وہ کاوش مژگان یار میں کیا تھا ادھر خیال تھا رخسار و چشم و لب کا ادھر خبر نہیں دل امیدوار میں ...
جاں بھی پرسوز ہو انجام تمنا کیا ہے کوئی بتلائے کہ جینے کا بہانا کیا ہے میری آنکھوں میں نمی بھی ہو تو واللہ کیا ہے کوئی بھی جس کو نہ دیکھے وہ تماشا کیا ہے وہ نہ چاہیں تو مزہ چاہ میں پھر خاک ملے ہم اگر چاہیں بھی بالفرض تو ہوتا کیا ہے دل سلگتا ہے سلگتا رہے جلتا ہے جلے ایسی باتوں سے ...
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے میں سادہ دل تھا کہ دامن پہ ان کے رو بھی دیا مگر گلوں کے دلوں میں ابھی غبار سا ہے وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے کہ اس کے وعدوں پہ پھر آج اعتبار سا ہے میں تجھ سے رمز محبت کہوں تو کیسے کہوں میں بے قرار ہوں اور ...
میں نے کہا کہ راز چھپایا نہ جائے گا بولے کسی سے منہ بھی لگایا نہ جائے گا ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم جی پہ سہہ بھی لیں آٹھوں پہر کا غم تو اٹھایا نہ جائے گا اس نامراد دل نے یہ ٹھانی ہے اے خیال سوئی محبتوں کو جگایا نہ جائے گا ہر غنچہ دل گرفتہ ہوا سن کے میری بات چھوڑو بھی اب وہ قصہ سنایا ...