ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے

ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے
بہار باقی ہے زخم بہار باقی ہے


یہ انتظار کی گھڑیاں کنار جوئے چشم
امید ڈوب چکی اعتبار باقی ہے


تمہارے رخ پہ ہیں کچھ اجنبی نظر کے نشاں
تمہارے ابرو پہ ہلکا سا بار باقی ہے


سنا ہے ہند کی شاداب وادیوں میں رفیق
بہار آ بھی چکی ہے بہار باقی ہے


عجب نہیں ہے کہ شبنم سے موت ہو جائے
گلوں کی تشنہ لبی بے شمار باقی ہے


طلسم غیر نہیں تار عنکبوت سے کم
ہزار ٹوٹ چکا ہے ہزار باقی ہے


مری بہار کی آسودگی میں اے مسعودؔ
سنا ہے تو ہی فقط بے قرار باقی ہے