Khalid Mahmood

خالد محمود

خالد محمود کی غزل

    رنگ و رامش زمزمے گل ہائے تر ہوتے ہوئے

    رنگ و رامش زمزمے گل ہائے تر ہوتے ہوئے دل اکیلا اور اتنے ہم سفر ہوتے ہوئے آنسوؤں سے سرد ہو جاتی ہے ہر سینے کی آگ میرا دل آتش کدہ ہے چشم تر ہوتے ہوئے دل کی دنیا میں اندھیرا ہو تو کچھ روشن نہیں آنکھ چشم سنگ ہے شمس و قمر ہوتے ہوئے چشم آگے ایک چہرہ پاؤں گو چکر میں ہیں در بہ در ہوتا ...

    مزید پڑھیے

    ہر کمند ہوس سے باہر ہے

    ہر کمند ہوس سے باہر ہے طائر جاں قفس سے باہر ہے موت کا ایک دن معین ہے زندگی دسترس سے باہر ہے قافلے میں ہم اس مقام پہ ہیں جو صدائے جرس سے باہر ہے کوئی شے گھر کی خوش نہیں آتی وہ برس دو برس سے باہر ہے

    مزید پڑھیے

    فکر سود و زیاں میں رہنا ہے

    فکر سود و زیاں میں رہنا ہے بس یہی اس جہاں میں رہنا ہے اک کشاکش سی جاں میں رہنا ہے جب تلک داستاں میں رہنا ہے ہر طرف آسمان پھیلا ہے سب کو اک سائباں میں رہنا ہے کل کیوں گرتا ہے آج گر جائے کون سا اس مکاں میں رہتا ہے کتنی آسانیاں میسر ہیں کتنا مشکل جہاں میں رہنا ہے کمرۂ امتحان ہے ...

    مزید پڑھیے

    مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے

    مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے وہ دشمنی بھی بڑی پروقار کرتا ہے جو ہو سکے تو اسے مجھ سے دور ہی رکھئے وہ شخص مجھ پہ بڑا اعتبار کرتا ہے نگر میں اس کی بہت دشمنی کے چرچے ہیں مگر وہ پیار بھی دیوانہ وار کرتا ہے میں جس خیال سے دامن کشیدہ رہتا ہوں وہی خیال مرا انتظار کرتا ہے شکایتیں ...

    مزید پڑھیے

    راستہ پرخار دلی دور ہے

    راستہ پرخار دلی دور ہے سچ کہا ہے یار دلی دور ہے کام دلی کے سوا ہوتے نہیں اور ناہنجار دلی دور ہے اب کسی جا بھی سکوں ملتا نہیں آسماں قہار دلی دور ہے پھونک دیتا ہے ہر اک کے کان میں صبح کا اخبار دلی دور ہے کل تلک کہتے ہیں دلی دور تھی آج بھی سرکار دلی دور ہے صبح گزری شام ہونے آئی ...

    مزید پڑھیے

    برائے تشنہ لب پانی نہیں ہے

    برائے تشنہ لب پانی نہیں ہے سمندر کا کوئی ثانی نہیں ہے ہمارا گھر بھی صحرا ہو گیا ہے مگر غالبؔ سی ویرانی نہیں ہے رگوں میں خون شوخی کر رہا ہے ستارہ سی وہ پیشانی نہیں ہے میں اپنے گھر کے اندر چین سے ہوں کسی شے کی فراوانی نہیں ہے نظام جسم جمہوری ہے خالدؔ کسی جذبے کی سلطانی نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    یہاں سے ہے کہانی رات والی

    یہاں سے ہے کہانی رات والی کہ وہ اک رات تھی برسات والی کہا تھا جو وہی کر کے دکھایا وہ برق بے اماں تھی بات والی بڑی لمبی پلاننگ کر رہی ہے ہماری زندگی لمحات والی کسی کی بھی نہیں ہوتی یہ دنیا کہ اس کی ذات ہے بد ذات والی ہمارا حوصلہ ہے زندگی سے لڑے جاتے ہیں کشتی مات والی نہ اب گھر ...

    مزید پڑھیے

    نہیں ہے اگر ان میں بارش ہوا

    نہیں ہے اگر ان میں بارش ہوا اٹھا بادلوں کی نمائش ہوا گہے برف ہے گاہ آتش ہوا تجھے کیوں ہے دلی سے رنجش ہوا میں گنجان شہروں کا مارا ہوا نوازش نوازش نوازش ہوا ترے ساتھ چلنے کی عادت نہیں ہماری نہ کر آزمائش ہوا شکستہ سفینہ مسافر نڈھال تلاطم شب تار بارش ہوا اب اشک و تپش چشم و دل میں ...

    مزید پڑھیے

    جو سورج ہو تو ہر منظر اجالا کیوں نہیں کرتے

    جو سورج ہو تو ہر منظر اجالا کیوں نہیں کرتے یہ آٹھوں پہر کی راتیں سویرا کیوں نہیں کرتے تعجب ہے مجھی کو اپنی محفل میں نہیں دیکھا نہیں دیکھا اگر تم نے تو دیکھا کیوں نہیں کرتے چراتا ہے وہ پہلے نیند پھر شوخی سے کہتا ہے یہ شب بھر جاگتے رہتے ہو سویا کیوں نہیں کرتے حساب دوستاں اے دل ...

    مزید پڑھیے

    ہنر مندی سے جینے کا ہنر اب تک نہیں آیا

    ہنر مندی سے جینے کا ہنر اب تک نہیں آیا سفر کرتے رہے طرز سفر اب تک نہیں آیا غلط ہے تیرے اشکوں میں اثر اب تک نہیں آیا تجھے رونا اے میری چشم تر اب تک نہیں آیا ہزاروں فلسفی قبضہ کئے بیٹھے ہیں ذہنوں پر مرے قابو میں یارب میرا سر اب تک نہیں آیا پڑا رہتا ہے ہر دم خوف کا سایہ رگ جاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2