رنگ و رامش زمزمے گل ہائے تر ہوتے ہوئے

رنگ و رامش زمزمے گل ہائے تر ہوتے ہوئے
دل اکیلا اور اتنے ہم سفر ہوتے ہوئے


آنسوؤں سے سرد ہو جاتی ہے ہر سینے کی آگ
میرا دل آتش کدہ ہے چشم تر ہوتے ہوئے


دل کی دنیا میں اندھیرا ہو تو کچھ روشن نہیں
آنکھ چشم سنگ ہے شمس و قمر ہوتے ہوئے


چشم آگے ایک چہرہ پاؤں گو چکر میں ہیں
در بہ در ہوتا نہیں دل در بہ در ہوتے ہوئے


حوصلہ ٹوٹا تو وہ عبرت کا منظر آ گیا
اڑ نہیں پایا پرندہ بال و پر ہوتے ہوئے


نصف دنیا بھوک سے اور پیاس سے مغلوب ہے
دست و بازو ذہن و دل لعل و گہر ہوتے ہوئے


ہر کس و ناکس پہ کر لیتا ہے فوراً اعتبار
بے خبر کتنا ہے خالدؔ با خبر ہوتے ہوئے