فکر سود و زیاں میں رہنا ہے

فکر سود و زیاں میں رہنا ہے
بس یہی اس جہاں میں رہنا ہے


اک کشاکش سی جاں میں رہنا ہے
جب تلک داستاں میں رہنا ہے


ہر طرف آسمان پھیلا ہے
سب کو اک سائباں میں رہنا ہے


کل کیوں گرتا ہے آج گر جائے
کون سا اس مکاں میں رہتا ہے


کتنی آسانیاں میسر ہیں
کتنا مشکل جہاں میں رہنا ہے


کمرۂ امتحان ہے دنیا
ہر گھڑی امتحاں میں رہنا ہے


پھر لگائی سبیل آنکھوں نے
پھر سے آب رواں میں رہنا ہے


آب و گل آتش و ہوا ہیں ہم
اور اسی خانداں میں رہنا ہے


زندگی پوچھتے ہو کیا مجھ سے
قہقہوں کا فغاں میں رہنا ہے


فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
ہم کو ہندوستاں میں رہنا ہے


سانسیں مغموم ہو گئیں سن کر
خالدؔ خستہ جاں میں رہنا ہے