کوثر نیازی کی غزل

    کیا حقیقت میں نہیں تھے یہ سزا وار ترے

    کیا حقیقت میں نہیں تھے یہ سزا وار ترے کیوں شفا یاب نہ ہو پائے یہ بیمار ترے ابر کیا کیا نہ عنایات کے برسے لیکن جاں بلب آج بھی ہیں تشنۂ دیدار ترے ہے ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کس قدر سادہ طبیعت ہیں پرستار ترے تجھ سے کرتے ہیں تقاضا تری تصویروں کا ہم حقیقت میں اگرچہ ہیں طلب گار ...

    مزید پڑھیے

    میں نے ہر گام اسے اول و آخر جانا

    میں نے ہر گام اسے اول و آخر جانا لیکن اس نے مجھے لمحوں کا مسافر جانا میں تو تھا اس کے چمن زار محبت کا اسیر لیکن اس نے مجھے ہر شاخ کا طائر جانا اس نے اخلاص کے مارے ہوئے دیوانے کو ایک آوارہ و بد نام سا شاعر جانا در حقیقت یہی اعزاز بہت ہے کوثرؔ دو گھڑی اس نے ہمیں اپنا بہ ظاہر جانا

    مزید پڑھیے

    گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے

    گرتے ہوئے جب میں نے ترا نام لیا ہے منزل نے وہیں بڑھ کے مجھے تھام لیا ہے مے خوار تو ہے محتسب شہر زیادہ رندوں نے یوں ہی مفت میں الزام لیا ہے وہ مل نہ سکے یاد تو ہے ان کی سلامت اس یاد سے بھی ہم نے بہت کام لیا ہے ہر مرحلۂ غم میں ملی اس سے تسلی ہر موڑ پہ گھبرا کے ترا نام لیا ہے تجھ سا ...

    مزید پڑھیے

    ہم دل کی تباہی کا یہ ساماں نہ کریں گے

    ہم دل کی تباہی کا یہ ساماں نہ کریں گے اس گھر میں کسی اور کو مہماں نہ کریں گے گھبرا کے کبھی چاک گریباں نہ کریں گے بد نام تجھے فصل بہاراں نہ کریں گے مشعل کو چراغ تہ داماں نہ کریں گے جو داغ ہیں سینے میں وہ پنہاں نہ کریں گے ٹکرائیں گے تیرے لیے ہر موج بلا سے ساحل پہ کھڑے شکوۂ طوفاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    زمیں کی گود میں بیٹھا ہمک رہا ہوں میں

    زمیں کی گود میں بیٹھا ہمک رہا ہوں میں فلک پہ چاند کی جانب لپک رہا ہوں میں نہیں ہے اپنی زمیں کی کوئی خبر لیکن خلا میں دور کسی شے کو تک رہا ہوں میں نہا گیا ہوں خود اپنے لہو میں سرتاپا جنوں کی آگ میں لیکن دہک رہا ہوں میں اگرچہ ظلمت شب میں کمی نہیں آئی مثال ماہ درخشاں چمک رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    کوچۂ یار میں گدائی کی

    کوچۂ یار میں گدائی کی اک یہی کام کی کمائی کی ہائے وہ انتظار کے لمحے آہ یہ ساعتیں جدائی کی ہم نے حسن ادا کہا اس کو جب کبھی تو نے کج ادائی کی دوستو دیکھ بھال کر چلنا سخت منزل ہے آشنائی کی شیخ صاحب خدا ہی بن بیٹھے ہے بری چاٹ پارسائی کی رنگ حسرتؔ میں آج اے کوثرؔ خوب تو نے غزل سرائی ...

    مزید پڑھیے

    بات قسمت کی تو کچھ اے دل ناکام نہیں

    بات قسمت کی تو کچھ اے دل ناکام نہیں اپنی تقصیر ہے یہ گردش ایام نہیں اے مسیحا کبھی تو بھی تو اسے دیکھنے آ تیرے بیمار کو سنتے ہیں کہ آرام نہیں ایک وہ جن کے تصرف میں ہیں سب مے خانے ایک ہم جن کے لیے درد تہ جام نہیں مجھ کو یہ غم کہ انہیں دیکھنے والے ہیں بہت ان کو شکوہ کہ یہاں ذوق نظر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2