Karamat Ghauri

کرامت غوری

کرامت غوری کی غزل

    نوائے ساز بنتا جا رہا ہوں

    نوائے ساز بنتا جا رہا ہوں بس اک آواز بنتا جا رہا ہوں رفیق اب کوئی بھی میرا نہیں ہے میں خود دم ساز بنتا جا رہا ہوں زمانہ جو بھی کروٹ لے رہا ہو وہی انداز بنتا جا رہا ہوں مزاج وقت کو سمجھا ہے جب سے زمانہ ساز بنتا جا رہا ہوں میں اپنی ذات میں گم ہو گیا ہوں معما راز بنتا جا رہا ہوں جو ...

    مزید پڑھیے

    جو دکھ دیے تھے کبھی تم کو آزمانے کو

    جو دکھ دیے تھے کبھی تم کو آزمانے کو وہ تیر بن کے پلٹ آئے سب نشانے کو تمہارا ساتھ نہ ہوتا تو بے اماں ہوتے تمہاری چھاؤں ضروری تھی آشیانے کو نہیں ہے خوف کہ نیچا دکھائے گی دنیا جو ساتھ تم رہو جاناں مجھے اٹھانے کو جو میں نے اپنی ہی گدڑی میں خود اجالے ہیں وہی ہیں لعل بہت زندگی سجانے ...

    مزید پڑھیے

    سوال یہ ہے سبب کس سے قتل کا پوچھیں (ردیف .. ا)

    سوال یہ ہے سبب کس سے قتل کا پوچھیں کہ جس نے قتل کیا وہ ہی بے زباں نکلا امیر شہر تو لفظوں کے جال بنتا ہے مگر جو سچ تھا وہ فقروں کے درمیاں نکلا ہمارے بعد بھی کیا زیب دار ہوگا کوئی یہی سوال مرا زیب داستاں نکلا ہم اپنی عقل کو الزام دیں کہ قسمت کو ہمارے دور میں رہزن بھی پاسباں ...

    مزید پڑھیے

    غزلیں بھی بہت لکھیں اور گیت بہت گائے

    غزلیں بھی بہت لکھیں اور گیت بہت گائے ہم شعر کی عظمت کو لیکن نہ پہنچ پائے کچھ ایسا انوکھا بھی انداز نہ تھا اپنا کچھ لوگ مگر پھر بھی ہم کو نہ سمجھ پائے ہم دل کی امیری سے اس درجہ تونگر تھے جو خاک ملی ہم کو ہم سونا بنا لائے مٹی میرے کھیتوں کی ہتھیا لی اسیروں نے اور جتنے گھروندے تھے ...

    مزید پڑھیے

    بہت تھکان بدن میں مرے سفر کی رہی

    بہت تھکان بدن میں مرے سفر کی رہی مگر وہ شوق کی منزل کہ ہر نگر کی رہی وہ جس پہ چل کے سدا پاؤں زخم زخم ہوئے نہ جانے کھوج ہمیں کیوں اسی ڈگر کی رہی جو میری ذات کی پنہائیاں سمجھ لیتی تمام عمر ضرورت اسی نظر کی رہی جب اپنے آپ میں ڈوبے فلک کو چھو آئے کہ احتیاج ہمیں اب نہ بال و پر کی ...

    مزید پڑھیے

    بکھر بکھر کے جو سمٹی وہ کائنات ہوں میں

    بکھر بکھر کے جو سمٹی وہ کائنات ہوں میں مرا ثبات یہی ہے کہ بے ثبات ہوں میں خدا تو بھول گیا کب کا خلق کر کے مجھے سحر بھی چھوڑ گئی جس کو ایسی رات ہوں میں مرے نفس میں ہے پنہاں جو میرا خالق ہے ورق ورق جو مکمل ہے وہ کتاب ہوں میں میں اپنی ذات میں یکتا نہیں ہوں دنیا میں جو سب پہ بیت رہی ہے ...

    مزید پڑھیے

    کیا زمانے سے توقع رکھیں اچھائی کی

    کیا زمانے سے توقع رکھیں اچھائی کی یہ تو دنیا ہے نہ اپنوں کی نہ ہرجائی کی جب سے دنیا نے مشینوں سے شناسائی کی سب کی آنکھوں میں تھکن دیکھی ہے تنہائی کی اک پڑاؤ ہے گھڑی دو گھڑی دم لینے کو وہ گرفتار ہوا جس نے شناسائی کی منصب و جبہ و دستار پہ موقوف نہیں شخصیت اصل تو ہے قامت زیبائی ...

    مزید پڑھیے

    جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا

    جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا توقعات سے بڑھ کر وہ میزباں نکلا ثمر سے پہلے شجر کاٹ کر جلا ڈالے کہ جلدباز بہت اب کے باغباں نکلا عجیب رنگ ہوا اب کے میری نگری کا کہ جو بھی شہر میں نکلا وہ بے اماں نکلا یہ کس عذاب نے بستی کو میری گھیر لیا کہ چولھے سرد رہے یاں مگر دھواں نکلا سوال ...

    مزید پڑھیے