کیا زمانے سے توقع رکھیں اچھائی کی
کیا زمانے سے توقع رکھیں اچھائی کی
یہ تو دنیا ہے نہ اپنوں کی نہ ہرجائی کی
جب سے دنیا نے مشینوں سے شناسائی کی
سب کی آنکھوں میں تھکن دیکھی ہے تنہائی کی
اک پڑاؤ ہے گھڑی دو گھڑی دم لینے کو
وہ گرفتار ہوا جس نے شناسائی کی
منصب و جبہ و دستار پہ موقوف نہیں
شخصیت اصل تو ہے قامت زیبائی کی
وہ تو خوشبو تھی بکھرنا تھا مقدر اس کا
یہ نصیب اس کا جو گلشن نے پذیرائی کی
جو سر بزم کہا دار پہ دہرایا وہی
میری گفتار میں جرأت رہی سچائی کی
گھاؤ بھرنے تھے جنہیں لے کے وہ نشتر آئے
کس مسیحا سے رکھیں آس مسیحائی کی
اب کہاں سرمد و منصور سے آشفتہ مزاج
رسم فرزانوں نے ڈالی ہے شکیبائی کی
دیکھنے سے کہاں کھلتا ہے سمندر کا مزاج
ڈوب کر بات کھلا کرتی ہے گہرائی کی
جانتا ہوں کہ کرامتؔ ہے مرے منصب کی
جو حریفوں نے سر بزم پذیرائی کی