جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا
جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا
توقعات سے بڑھ کر وہ میزباں نکلا
ثمر سے پہلے شجر کاٹ کر جلا ڈالے
کہ جلدباز بہت اب کے باغباں نکلا
عجیب رنگ ہوا اب کے میری نگری کا
کہ جو بھی شہر میں نکلا وہ بے اماں نکلا
یہ کس عذاب نے بستی کو میری گھیر لیا
کہ چولھے سرد رہے یاں مگر دھواں نکلا
سوال یہ ہے سبب کس سے قتل کا پوچھیں
کہ جس نے قتل کیا وہ ہی بے زباں نکلا
ہمارے بعد بھی کیا زیب دار ہوگا کوئی
یہی سوال مرا زیب داستاں نکلا
ہم اپنی عقل کو الزام دیں کہ قسمت کو
ہمارے دور میں رہزن بھی پاسباں نکلا
جبیں جھکی تو زمیں اٹھ کے عاجزی سے ملی
جو سر اٹھا تو بہت دور آسماں نکلا
رہے ہیں ہم تو کرامتؔ گئے دنوں کے نقیب
کہ ہم سے عہد نیا سخت بد گماں نکلا