Kanval Malik

کنول ملک

کنول ملک کی نظم

    لوٹ آؤ سنو

    درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی ہے اور تمہاری کنولؔ باغ کے اک کنارے پہ بکھرے ہوئے سوکھتے ٹوٹتے زرد پتوں پہ چلتے ہوئے نظم اک مختصر لکھ رہی ہے تمہارے لیے اس کی آنکھوں سے بے رنگ بہتے ہوئے اشک جو لال ہونے کو تھے ہجر کا زہر پیتے ہوئے کاسنی ہو گئے اپنی زخمی سی پوروں سے چن کر ...

    مزید پڑھیے

    موسم

    بھیگے بھیگے موسم میں وہ تیکھے نقش اور نینوں والی اک لڑکی شرمیلی سی چھت پر آتی جاتی اپنے آنچل کو لہراتی تھی ہنستے ہنستے بارش میں وہ بھیگی زلفیں پھیلا کر جیسے رنگ اڑاتی تھی پھر سنگھار کی میز پہ وہ پہروں اپنی روشن روشن آنکھیں تکتی دانتوں میں پھر ہونٹ دبا کر اتراتی اور خود سے ہی ...

    مزید پڑھیے

    عشق

    میں تری کھوج میں صحرا صحرا بھٹکتی رہی مدتوں ننگے پاؤں میں پھوٹے ہوئے آبلے جب سسکنے لگے ہونٹ پانی کی خاطر بلکنے لگے خشک ہونٹوں پہ اپنی زباں پھیرتے آسماں کی طرف آنکھ دوڑائی تو آنکھ سے چند آنسو ٹپک کر میرے کان کو ڈھانکتے میرے بالوں کی سوکھی لٹوں کو بھگوتے ہوئے کان میں جا گرے چیختے ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری شاعرہ پاگل

    تمہاری شاعرہ پاگل ہزاروں شعر لکھتی نظم اور غزلیں کہا کرتی ہمیشہ سوچتی رہتی کوئی کاغذ کا ٹکڑا ڈھونڈھتی اور دل کا سارا حال لکھ دیتی کہ اس کے پاس تو کتنے ہی لفظوں کا ذخیرہ تھا سیاہی سوکھ جاتی جب قلم خاموش ہو جاتے تو پھر آنسو سیاہی بنتے جاتے لفظ کب خاموش ہوتے تھے تمہاری شاعرہ ...

    مزید پڑھیے