لوٹ آؤ سنو
درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی ہے اور تمہاری کنولؔ باغ کے اک کنارے پہ بکھرے ہوئے سوکھتے ٹوٹتے زرد پتوں پہ چلتے ہوئے نظم اک مختصر لکھ رہی ہے تمہارے لیے اس کی آنکھوں سے بے رنگ بہتے ہوئے اشک جو لال ہونے کو تھے ہجر کا زہر پیتے ہوئے کاسنی ہو گئے اپنی زخمی سی پوروں سے چن کر ...