موسم

بھیگے بھیگے موسم میں وہ
تیکھے نقش اور نینوں والی
اک لڑکی شرمیلی سی
چھت پر آتی جاتی اپنے آنچل کو لہراتی تھی
ہنستے ہنستے بارش میں وہ بھیگی زلفیں پھیلا کر
جیسے رنگ اڑاتی تھی
پھر سنگھار کی میز پہ وہ
پہروں اپنی روشن روشن آنکھیں تکتی
دانتوں میں پھر ہونٹ دبا کر اتراتی اور
خود سے ہی شرماتی تھی
نظمیں لکھتی غزلیں کہتی
گیلے بال سکھاتی تھی
اتنے اچھے بھیگے بھیگے موسم میں اب
اس کا اپنی چھت پر آنا بنتا ہے
ہنستے ہنستے بارش میں اب رنگ اڑانا بنتا ہے
دانتوں میں پھر ہونٹ دبا کر
اترانا بھی اور شرمانا بنتا ہے
لیکن اب
وہ سنگھار کی ٹیبل پر
اپنی بھیگی بھیگی آنکھیں پہروں تکتی رہتی ہے
نظمیں سوچتی رہتی ہے اور
غزلیں کہتی رہتی ہے
ہاتھ کی ریکھاؤں سے الجھ کر
اپنے ہونٹ
میچ کے آنکھیں دھیرے دھیرے اپنے اشک بہاتی ہے
آئینے کے سامنے بیٹھی بھیگے خواب سکھاتی ہے