لوٹ آؤ سنو

درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی ہے اور تمہاری کنولؔ
باغ کے اک کنارے پہ بکھرے ہوئے
سوکھتے ٹوٹتے زرد پتوں پہ چلتے ہوئے
نظم اک مختصر لکھ رہی ہے تمہارے لیے
اس کی آنکھوں سے بے رنگ بہتے ہوئے
اشک جو لال ہونے کو تھے
ہجر کا زہر پیتے ہوئے کاسنی ہو گئے
اپنی زخمی سی پوروں سے چن کر انہیں
لکھ رہی ہے کوئی نظم اک مختصر
جس کا عنوان ہے
لوٹ آؤ سنو
کہ درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی اب جا رہا ہے بہاروں کی راہ دیکھتے
اور تمہاری کنولؔ پتی پتی بکھرتے ہوئے
راستے سے یوں لگ کر بڑی دیر سے
راستہ دیکھتے اب بہت تھک گئی
لوٹ آؤ سنو