Kaleem Noori Firozabadi

کلیم نوری فیروزابادی

کلیم نوری فیروزابادی کی غزل

    خواہش دید کے آنکھوں میں اجالے لے کر

    خواہش دید کے آنکھوں میں اجالے لے کر ڈھونڈھتا ہوں میں تجھے پاؤں میں چھالے لے کر زرد پڑ جاتے ہیں تابندہ ستاروں کے بدن چاند جس وقت نکلتا ہے اجالے لے کر ٹوٹ جائے گا یہ تیرا بھی تکبر سورج رات جب آئے گی تاریک حوالے لے کر زندگی اس کو بچانا ہو تو یوں بچتی ہے بھیج دیتا ہے خدا مکڑیاں ...

    مزید پڑھیے

    غم کا جزدان ہو گیا ہوں میں

    غم کا جزدان ہو گیا ہوں میں اپنی پہچان ہو گیا ہوں میں خوشبوئیں بس گئیں ہیں رگ رگ میں جیسے گلدان ہو گیا ہوں میں روز مجھ میں چتائیں جلتی ہیں ایک شمشان ہو گیا ہوں میں کوئی مجھ کو سمجھ نہیں پاتا اتنا آسان ہو گیا ہوں میں ٹھہرتی ہی نہیں کوئی خواہش قصر ویران ہو گیا ہوں میں میری چھوٹی ...

    مزید پڑھیے

    مہکنے کا قرینہ آ گیا ہے

    مہکنے کا قرینہ آ گیا ہے غزل کو زخم سینا آ گیا ہے چراغوں کی لویں اب سست کر دو ستاروں کو پسینا آ گیا ہے اے میری زندگی تجھ سے بچھڑ کر مجھے قسطوں میں جینا آ گیا ہے چلو طوفاں سے بھی اب بات کر لیں کنارے پر سفینہ آ گیا ہے اتر جائے گا سورج تیرا نشہ دسمبر کا مہینہ آ گیا ہے

    مزید پڑھیے

    کیا جئے گا کوئی ہم خاک نشینوں کی طرح

    کیا جئے گا کوئی ہم خاک نشینوں کی طرح ایک اک پل یہاں گزرا ہے مہینوں کی طرح اس نے چڑھ کر مرے کاندھوں پہ فلک چوم لیا میں زمیں پر ہی کھڑا رہ گیا زینوں کی طرح دور حاضر میں محبت کا کوئی مول نہیں دل بھی ہونے لگے نیلام زمینوں کی طرح خود نہیں چلتا کوئی اور چلاتا ہے اسے اب تو انسان بھی ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح سے نہ رولیے آنسو

    اس طرح سے نہ رولیے آنسو قہقہوں میں بھی گھولیے آنسو ہم نے دل کی زمیں کے بدلے میں اپنی آنکھوں میں بو لئے آنسو دے کے پھر کوئی غم جگا دیجے سو لئے خوب سو لئے آنسو میری آنکھوں میں ڈھونڈیئے نہ انہیں اپنے دل میں ٹٹولئے آنسو جب خیال آیا کوئی دیکھ نہ لے آستیں میں سمو لئے آنسو تنہا ...

    مزید پڑھیے

    خوشبوؤں میں اتر رہے ہیں ہم (ردیف .. ن)

    خوشبوؤں میں اتر رہے ہیں ہم تم کو محسوس کر رہے ہیں ہم ہم سے لفظوں نے زندگی پائی اور قسطوں میں مر رہے ہیں ہم کھو نہ جائے کہیں وجود اپنا ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں ہم تم کو آباد دیکھنے کے لئے خود کو برباد کر رہے ہیں ہم تیری نظروں سے گر کے ایسا لگا آسماں سے اتر رہے ہیں ہم دید ان کی ...

    مزید پڑھیے

    اس کو چھونے کو کئی ہاتھ نکل کر آئے

    اس کو چھونے کو کئی ہاتھ نکل کر آئے چاند سے کس نے کہا تھا کہ وہ چھت پر آئے ہو اٹھا پھر سے سیاست میں سمندر منتھن زہر پینے کے لئے پھر کوئی شنکر آئے تم نے آنکھیں تو کھلی رکھی ہیں اپنی لیکن دل کا دروازہ کھلے تب کوئی اندر آئے میں تو فرہاد نہیں قیس بھی رانجھا بھی نہیں کیوں مری سمت ہر اک ...

    مزید پڑھیے