اس کو چھونے کو کئی ہاتھ نکل کر آئے

اس کو چھونے کو کئی ہاتھ نکل کر آئے
چاند سے کس نے کہا تھا کہ وہ چھت پر آئے


ہو اٹھا پھر سے سیاست میں سمندر منتھن
زہر پینے کے لئے پھر کوئی شنکر آئے


تم نے آنکھیں تو کھلی رکھی ہیں اپنی لیکن
دل کا دروازہ کھلے تب کوئی اندر آئے


میں تو فرہاد نہیں قیس بھی رانجھا بھی نہیں
کیوں مری سمت ہر اک سمت سے پتھر آئے


غم میں ڈوبی ہوئی غزلوں کے جو آنسو پونچھے
ایسا کوئی تو زمانے میں سخنور آئے


میں وہ دریا ہوں جو گھر سے کبھی نکلا ہی نہیں
پیاس لے کر میری چوکھٹ پہ سمندر آئے