غم کا جزدان ہو گیا ہوں میں
غم کا جزدان ہو گیا ہوں میں
اپنی پہچان ہو گیا ہوں میں
خوشبوئیں بس گئیں ہیں رگ رگ میں
جیسے گلدان ہو گیا ہوں میں
روز مجھ میں چتائیں جلتی ہیں
ایک شمشان ہو گیا ہوں میں
کوئی مجھ کو سمجھ نہیں پاتا
اتنا آسان ہو گیا ہوں میں
ٹھہرتی ہی نہیں کوئی خواہش
قصر ویران ہو گیا ہوں میں
میری چھوٹی سی اک حکومت ہے
جس کا سلطان ہو گیا ہوں میں
ڈھو رہا ہوں میں خود کو کاندھوں پر
ایک شمشان ہو گیا ہوں میں
مجھ کا پتھر سمجھ کے مت توڑو
اب تو انسان ہو گیا ہوں میں