Kaifi Chirayyakoti

کیفی چریاکوٹی

کیفی چریاکوٹی کی غزل

    اف مری زندگی کی رات اف مری زندگی کے دن

    اف مری زندگی کی رات اف مری زندگی کے دن ایسی نہ ہے کسی کی رات ایسے نہ ہیں کسی کے دن رخ پہ ہے سرخیٔ حیا رنگ نگاہ سرمگیں جان بہار بن گئے حسن کی سادگی کے دن زندگی امیدوار ایک ادا عتاب کی آنکھ میں کٹ گئی تھی رات ہائے وہ برہمی کے دن پاؤں بڑھا کے چل دیا اور میں دیکھتا رہا آہ شباب بے خطر ...

    مزید پڑھیے

    کر کے دل نالاں سے مرے ساز کسی نے

    کر کے دل نالاں سے مرے ساز کسی نے دی ہے مجھے پردے سے یہ آواز کسی نے اس دل کا ہے جو درد وہی جان ہے دل کی سمجھا نہ کبھی عشق کا یہ راز کسی نے وا باب قفس اور ہوں میں باب قفس پر جیسے کہ اڑا لی پر پرواز کسی نے تقدیر میں جو کچھ مری ہنسنا ہے کہ رونا بخشا وہی دل کو مرے انداز کسی نے ہر اشک کا ...

    مزید پڑھیے

    کہو دیر و حرم یا نام اپنا آستاں رکھ دو

    کہو دیر و حرم یا نام اپنا آستاں رکھ دو سر تسلیم خم ہے تم جہاں چاہو وہاں رکھ دو گھٹا کر قید آزادی بڑھا دو غم اسیری کا قفس کو آشیاں میں یا قفس میں آشیاں رکھ دو تسلی دینے والو ہم تہی دستان قسمت ہیں سر دامن جو ممکن ہو تو دل کی دھجیاں رکھ دو ضرورت جان کی دل کو میں بے پروائے ہستی ...

    مزید پڑھیے

    سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں

    سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں گل جتنے ہیں اس باغ میں مرجھائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوں میں اپنی دعاؤں کے اثر سے وہ آج پریشان ہیں گھبرائے ہوئے ہیں خودداریٔ گیسو کا ہے اس رخ پہ یہ عالم جھکنا جو پڑا ان کو تو بل کھائے ہوئے ہیں اب تم بھی ذرا حسن جہاں سوز کو روکو ہم تو دل بے تاب کو ...

    مزید پڑھیے

    زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے

    زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے مگر سارا زمانہ بزم کا افسانہ کہتا ہے بقدر ظرف قسمت میرے ساقی کی عنایت ہے کوئی پیمانہ کہتا ہے کوئی مے خانہ کہتا ہے حجاب لالہ و گل کو مہ و انجم کے پردے کو وہی کہتا ہوں میں جو جلوۂ جانانہ کہتا ہے شب غم میں جو اپنے دل سے کچھ کہنے کو کہتا ...

    مزید پڑھیے

    حسن حجاب آشنا جانب بام آ گیا

    حسن حجاب آشنا جانب بام آ گیا بادۂ تہ نشین جام تا لب جام آ گیا آپ نے پھینک دی نقاب گرمئ عشق دیکھ کر حشر نواز حسن آج حشر کے کام آ گیا ملت کفر و دیں کی بحث گرم تھی خانقاہ میں اتنے میں کوئی مے پئے دست بہ جام آ گیا شوق کا اعتبار کیا یاس یہ اختیار کیا راہ امید و بیم میں دل کا مقام ...

    مزید پڑھیے

    یہ دل کی بات ہے کس نے کہی ہے

    یہ دل کی بات ہے کس نے کہی ہے محبت خود سراسر آگہی ہے تمہیں کہہ دو کہ میں بالکل نہ سمجھا نظر جھینپی ہوئی کچھ کہہ رہی ہے یہ سر پر سایہ گستر خاک صحرا جنوں بے تاج کی شاہنشہی ہے وہ جس نے چھین لی ہے زندگانی متاع زندگانی بھی وہی ہے جنون عشق خود منزل ہے کیفیؔ خرد کی راہ اس میں گمرہی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2