حسن حجاب آشنا جانب بام آ گیا
حسن حجاب آشنا جانب بام آ گیا
بادۂ تہ نشین جام تا لب جام آ گیا
آپ نے پھینک دی نقاب گرمئ عشق دیکھ کر
حشر نواز حسن آج حشر کے کام آ گیا
ملت کفر و دیں کی بحث گرم تھی خانقاہ میں
اتنے میں کوئی مے پئے دست بہ جام آ گیا
شوق کا اعتبار کیا یاس یہ اختیار کیا
راہ امید و بیم میں دل کا مقام آ گیا
دل مرا دیکھتا رہا اور میری زبان پر
لذت جان آرزو آپ کا نام آ گیا
دہر جوان ہو گیا کھل گیا میکدے کا در
ساقیٔ مست مست ناز مست خرام آ گیا
جلوۂ بے حجاب کو خوب سمجھ رہا ہوں میں
محشر دید منتظر منظر عام آ گیا
کیفیؔٔ بے قرار سن یہ رگ جاں کے ساز سے
ہے مری التجا قبول دل کا پیام آ گیا