زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے

زبان شمع کھلتی ہے نہ کچھ پروانہ کہتا ہے
مگر سارا زمانہ بزم کا افسانہ کہتا ہے


بقدر ظرف قسمت میرے ساقی کی عنایت ہے
کوئی پیمانہ کہتا ہے کوئی مے خانہ کہتا ہے


حجاب لالہ و گل کو مہ و انجم کے پردے کو
وہی کہتا ہوں میں جو جلوۂ جانانہ کہتا ہے


شب غم میں جو اپنے دل سے کچھ کہنے کو کہتا ہوں
تو جس سے بخت سو جائے وہی افسانہ کہتا ہے


خدا کہتے ہیں کہہ لینے دو تم ارباب ملت کو
محبت تو یہی کہتی ہے جو دیوانہ کہتا ہے


یہی ایمان مستی ہے یہی ہے دین مستوں کا
وہی ہوتا ہے جو کچھ ساقئ مے خانہ کہتا ہے


یہی کیفیؔ یہی ہے بے پیے ساقی کا متوالا
قدم مستانہ رکھتا ہے سخن مستانہ کہتا ہے