Kaifi Azmi

کیفی اعظمی

مقبول عام، ممتاز، ترقی پسند شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لئے مشہور

One of prominent progressive poets with popular appeal. Also film lyricist famous for his lyrics in films like Heer Ranjha, Kaghaz ke Phool etc.

کیفی اعظمی کی غزل

    کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

    کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد

    وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد داد سخن ملی مجھے ترک سخن کے بعد دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر گھٹن کے بعد غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ قدر وطن ہوئی ہمیں ترک ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا

    کہیں سے لوٹ کے ہم لڑکھڑائے ہیں کیا کیا ستارے زیر قدم رات آئے ہیں کیا کیا نشیب ہستی سے افسوس ہم ابھر نہ سکے فراز دار سے پیغام آئے ہیں کیا کیا جب اس نے ہار کے خنجر زمیں پہ پھینک دیا تمام زخم جگر مسکرائے ہیں کیا کیا چھٹا جہاں سے اس آواز کا گھنا بادل وہیں سے دھوپ نے تلوے جلائے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

    میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

    جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے ...

    مزید پڑھیے

    سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے

    سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے مرے جنون پرستش سے تنگ آ گئے لوگ سنا ہے بند کیے جا رہے ہیں بت خانے جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج ...

    مزید پڑھیے

    آج سوچا تو آنسو بھر آئے

    آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائے ہر قدم پر ادھر مڑ کے دیکھا ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے رہ گئی زندگی درد بن کے درد دل میں چھپائے چھپائے دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں یاد اتنا بھی کوئی نہ آئے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2