Kaifi Azmi

کیفی اعظمی

مقبول عام، ممتاز، ترقی پسند شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ ہیر رانجھا اور کاغذ کے پھول کے گیتوں کے لئے مشہور

One of prominent progressive poets with popular appeal. Also film lyricist famous for his lyrics in films like Heer Ranjha, Kaghaz ke Phool etc.

کیفی اعظمی کی غزل

    خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

    خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے میں اگر تھک گیا قافلہ تو چلے چاند سورج بزرگوں کے نقش قدم خیر بجھنے دو ان کو ہوا تو چلے حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہے مسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا آپ اینٹوں کی ...

    مزید پڑھیے

    لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں

    لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر ہر جگہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا

    جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا

    مزید پڑھیے

    اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

    اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے ساقی سبھی کو ہے غم تشنہ لبی مگر مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے مدت کے بعد ...

    مزید پڑھیے

    لائی پھر ایک لغزش مستانہ تیرے شہر میں

    لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر ہر جگہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

    شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو ...

    مزید پڑھیے

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

    تم اتنا جو مسکرا رہے ہو کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو بن جائیں گے زہر پیتے پیتے یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

    مزید پڑھیے

    پتھر کے خدا وہاں بھی پائے

    پتھر کے خدا وہاں بھی پائے ہم چاند سے آج لوٹ آئے دیواریں تو ہر طرف کھڑی ہیں کیا ہو گئے مہربان سائے جنگل کی ہوائیں آ رہی ہیں کاغذ کا یہ شہر اڑ نہ جائے لیلیٰ نے نیا جنم لیا ہے ہے قیس کوئی جو دل لگائے ہے آج زمیں کا غسل صحت جس دل میں ہو جتنا خون لائے صحرا صحرا لہو کے خیمے پھر پیاسے ...

    مزید پڑھیے

    کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ

    کی ہے کوئی حسین خطا ہر خطا کے ساتھ تھوڑا سا پیار بھی مجھے دے دو سزا کے ساتھ گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ منزل سے وہ بھی دور تھا اور ہم بھی دور تھے ہم نے بھی دھول اڑائی بہت رہ نما کے ساتھ رقص صبا کے جشن میں ہم تم بھی ناچتے اے کاش تم بھی آ گئے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی

    ہاتھ آ کر لگا گیا کوئی میرا چھپر اٹھا گیا کوئی لگ گیا اک مشین میں میں بھی شہر میں لے کے آ گیا کوئی میں کھڑا تھا کہ پیٹھ پر میری اشتہار اک لگا گیا کوئی یہ صدی دھوپ کو ترستی ہے جیسے سورج کو کھا گیا کوئی ایسی مہنگائی ہے کہ چہرہ بھی بیچ کے اپنا کھا گیا کوئی اب وہ ارمان ہیں نہ وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2