کفیل انور کی غزل

    سورج چاند ستارے روشن

    سورج چاند ستارے روشن دھرتی کے مہ پارے روشن فکر و نظر کے آئینے میں صحرا ریت شرارے روشن انا گزیدہ انسانوں میں کہاں رہیں گے سارے روشن ٹوٹے بکھرے خواب سنہری اور قلم کے تارے روشن قلب سیاہی مائل سب کے لیکن تیسوں پارے روشن انورؔ چھوڑ کے گھر نکلا ہوں بام و در گلیارے روشن

    مزید پڑھیے

    بدل بدل کے وہ چولا مکان سے نکلا

    بدل بدل کے وہ چولا مکان سے نکلا کسی کا تیر کسی کی کمان سے نکلا حسین بستیاں ویران کرنے والا بھی خوشی کو ڈھونڈھتا وہم و گمان سے نکلا عجیب حادثہ اہل زمین پر گزرا کہ قطرہ قطرہ لہو آسمان سے نکلا وہ حرف حرف کتابوں کو چاٹنے والا سفید کیڑا مری داستان سے نکلا وہ ایک قصہ جو انورؔ کبھی ...

    مزید پڑھیے

    ترے وجود کو بس آن بان میں رکھا

    ترے وجود کو بس آن بان میں رکھا کوئی بھی عکس نہ سونے مکان میں رکھا بس ایک وہم سا سایہ فگن رہا برسوں جو پھول سوکھ گیا خاکدان میں رکھا مری انا کے اگر روبرو نہیں کوئی تو ذکر کس کا یہ اپنے بیان میں رکھا سناتا کیسے میں قصہ یہ بے حسی کا یہاں کہ خود کو اس نے مگر درمیان میں رکھا مسافران ...

    مزید پڑھیے

    وہ کیا گیا مسلط مرا حال دیکھنے کو

    وہ کیا گیا مسلط مرا حال دیکھنے کو کہ عروج زندگانی کا زوال دیکھنے کو یہ عجیب مسئلہ ہے مرے اس کے درمیاں بھی وہ جواب لے کے آیا ہے سوال دیکھنے کو تو بدل کے اپنا چہرہ بڑا شادماں ہے لیکن کوئی آئنہ تو رکھ لے خد و خال دیکھنے کو جہاں کل بسا ہوا تھا مرا شہر اب ہے ملبہ مجھے اس نے زندگی دی ...

    مزید پڑھیے

    جہاں سے الگ اک جہاں چاہتا ہوں

    جہاں سے الگ اک جہاں چاہتا ہوں زمیں اور نیا آسماں چاہتا ہوں اندھیرے مجھے راس آنے لگے ہیں کہ میں روشنی کا زیاں چاہتا ہوں کہیں ظلم ہو لوگ آواز اٹھائیں کہ میں سب کے منہ میں زباں چاہتا ہوں مرے دل کو بھاتی ہیں امواج سرکش سمندر ہوں کوہ گراں چاہتا ہوں

    مزید پڑھیے

    جہاں میں کوئی تمہارا جواب ہو نہ سکا

    جہاں میں کوئی تمہارا جواب ہو نہ سکا ستارا لاکھ بڑھا آفتاب ہو نہ سکا خوشی کے چند ہی لمحے تھے گن لئے لیکن غم جہاں کا کسی سے حساب ہو نہ سکا یہاں تو چاروں طرف پتھروں کی بارش تھی کوئی بھی سنگ نشانہ مآب ہو نہ سکا قصور اس کو سمجھئے مری بصارت کا وہ بے لباس رہا بے حجاب ہو نہ سکا مرے لہو ...

    مزید پڑھیے