وہ کیا گیا مسلط مرا حال دیکھنے کو

وہ کیا گیا مسلط مرا حال دیکھنے کو
کہ عروج زندگانی کا زوال دیکھنے کو


یہ عجیب مسئلہ ہے مرے اس کے درمیاں بھی
وہ جواب لے کے آیا ہے سوال دیکھنے کو


تو بدل کے اپنا چہرہ بڑا شادماں ہے لیکن
کوئی آئنہ تو رکھ لے خد و خال دیکھنے کو


جہاں کل بسا ہوا تھا مرا شہر اب ہے ملبہ
مجھے اس نے زندگی دی یہ وبال دیکھنے کو


نہ تو داد کی تمنا نہ تو شہرتوں کی خواہش
مرا فن ہی آئنہ ہے یہ کمال دیکھنے کو


جو کھڑا ہوا ہے انورؔ لئے سنگ میرے آگے
وہ ہے مضطرب لہو کا یہ ابال دیکھنے کو