ترے وجود کو بس آن بان میں رکھا

ترے وجود کو بس آن بان میں رکھا
کوئی بھی عکس نہ سونے مکان میں رکھا


بس ایک وہم سا سایہ فگن رہا برسوں
جو پھول سوکھ گیا خاکدان میں رکھا


مری انا کے اگر روبرو نہیں کوئی
تو ذکر کس کا یہ اپنے بیان میں رکھا


سناتا کیسے میں قصہ یہ بے حسی کا یہاں
کہ خود کو اس نے مگر درمیان میں رکھا


مسافران عدم کا پڑاؤ کیا انورؔ
کہ اس نے خود ہی انہیں سائبان میں رکھا