Josh Malihabadi

جوشؔ ملیح آبادی

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

One of the most fiery progressive poets who is known as Shayar-e-Inquilab (revolutionary poet)

جوشؔ ملیح آبادی کی نظم

    حسن بیمار

    کیا غضب ہے حسن کے بیمار ہونے کی صدا جیسے کچی نیند سے بیدار ہونے کی ادا انکسار حسن پلکوں کے جھپکنے میں نہاں نیم وا بیمار آنکھوں سے مروت سی عیاں جنبش مژگاں میں غلطاں ساز غم کا زیر و بم خامشی میں پر فشاں ایفائے پیماں کی قسم احترام عشق کی رو دل نشیں آواز میں ایک پھیکے پن کا سناٹا ...

    مزید پڑھیے

    رشوت

    لوگ ہم سے روز کہتے ہیں یہ عادت چھوڑیئے یہ تجارت ہے خلاف آدمیت چھوڑیئے اس سے بد تر لت نہیں ہے کوئی یہ لت چھوڑیئے روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ رشوت چھوڑیئے بھول کر بھی جو کوئی لیتا ہے رشوت چور ہے آج قومی پاگلوں میں رات دن یہ شور ہے کس کو سمجھائیں اسے کھودیں تو پھر پائیں گے کیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    شکست زنداں کا خواب

    کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں دیواروں کے نیچے آ آ کر یوں جمع ہوئے ہیں زندانی سینوں میں تلاطم بجلی کا آنکھوں میں جھلکتی شمشیریں بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ...

    مزید پڑھیے

    ضعیفہ

    اک ضعیفہ راستے میں سو رہی ہے خاک پر مردنی چھائی ہوئی ہے چہرۂ غم ناک پر اور کس موسم میں جب طاعون ہے پھیلا ہوا ذرہ ذرہ ہے وبا کے خوف سے سمٹا ہوا رات آدھی آ چکی ہے بام و در خاموش ہیں اہل دولت لیلئ عشرت سے ہم آغوش ہیں اس قیامت کی ہے طاری ظلمت ہول آفریں شب کے دل میں صبح کا گویا تصور ...

    مزید پڑھیے

    گھٹا چھائی تو کیا

    چھٹ گئے جب آپ ہی اودی گھٹا چھائی تو کیا تربت پامال کے سبزے پہ لہر آئی تو کیا جب ضرورت ہی رہی باقی نہ لحن و رنگ کی کوئلیں کوکیں تو کیا ساون کی رت آئی تو کیا ہجر کے آلام سے جب چھٹ چکی نبض نشاط اب ہوا نے خار و خس میں روح دوڑائی تو کیا ہو چکی ذوق تبسم ہی سے جب بیگانگی اب چمن افروز پھولوں ...

    مزید پڑھیے

    مفلس

    ضعف سے آنکھوں کے نیچے تتلیاں پھرتی ہوئی اوج خودداری سے دل پر بجلیاں گرتی ہوئی لاش کاندھے پر خود اپنے جذبۂ تکریم کی ملتجی چہرے پہ لہریں سی امید و بیم کی عزت اجداد کے سر پر دما دم ٹھوکریں رشتۂ آواز پر لفظوں کی پیہم ٹھوکریں چہرۂ افسردہ پر ٹھنڈا پسینہ شرم کا سست نبضیں بھیک کا ...

    مزید پڑھیے

    کیا گل بدنی ہے

    کس درجہ فسوں کار وہ اللہ غنی ہے کیا موجۂ تابندگی و سیم تنی ہے انداز ہے یا جذبۂ گردوں زدنی ہے آواز ہے یا بربط ایماں شکنی ہے جنگل کی سیہ رات ہے یا زلف گھنی ہے کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے یہ لے ہے کہ کھلتی ہوئی غنچے کی کمانی مہکا ہوا یہ تن ہے کہ یہ رات کی رانی لہجے کی یہ رو ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    بیتے ہوئے دن

    کیا حال کہیں اس موسم کا جب جنس جوانی سستی تھی جس پھول کو چومو کھلتا تھا جس شے کو دیکھو ہنستی تھی جینا سچا جینا تھا ہستی عین ہستی تھی افسانہ جادو افسوں تھا غفلت نیندیں مستی تھی ان بیتے دنوں کی بات ہے یہ جب دل کی بستی بستی تھی غفلت نیندیں ہستی تھی آنکھیں کیا پیمانے تھے ہر روز جوانی ...

    مزید پڑھیے

    کسان

    جھٹپٹے کا نرم رو دریا شفق کا اضطراب کھیتیاں میدان خاموشی غروب آفتاب دشت کے کام و دہن کو دن کی تلخی سے فراغ دور دریا کے کنارے دھندلے دھندلے سے چراغ زیر لب ارض و سما میں باہمی گفت و شنود مشعل گردوں کے بجھ جانے سے اک ہلکا سا دود وسعتیں میدان کی سورج کے چھپ جانے سے تنگ سبزۂ افسردہ ...

    مزید پڑھیے

    خبر ہے کہ نہیں

    اب صبا کوچۂ جاناں میں گزرے ہے کہ نہیں تجھ کو اس فتنۂ عالم کی خبر ہے کہ نہیں بجھ گیا مہر کا فانوس کہ روشن ہے ابھی اب ان آنکھوں میں لگاوٹ کا اثر ہے کہ نہیں اب میرے نام کا پڑھتا ہے وظیفہ کوئی اب مرا ذکر وفا درد سحر ہے کہ نہیں اب بھی تکتی ہیں مری راہ وہ کافر آنکھیں اب بھی دزدیدہ نظر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4