Josh Malihabadi

جوشؔ ملیح آبادی

سب سے شعلہ مزاج ترقی پسند شاعر، شاعر انقلاب کے طور پر معروف

One of the most fiery progressive poets who is known as Shayar-e-Inquilab (revolutionary poet)

جوشؔ ملیح آبادی کی غزل

    عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی

    عیش کی جانب جو مائل کچھ طبیعت ہو گئی دل پہ غصہ آ گیا اپنے سے نفرت ہو گئی مجھ کو خود اپنی تباہی پر ترس آتا نہیں خوگر غم اس قدر اب تو طبیعت ہو گئی آئی جب اسٹیج پر دنیا تو دل خوش ہو گیا جب اٹھا انجام کا پردہ تو نفرت ہو گئی آ گئیں جنبش میں تسلیم و رضا کی قوتیں لب ملے ہی تھے پئے شکوہ ...

    مزید پڑھیے

    جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے

    جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے کس قدر ہم کو شادمانی ہے شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے یہ مرا فن خاندانی ہے کیوں لب التجا کو دوں جنبش تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا مہربانی ہے مہربانی ہے دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا تلخ ان سب کی زندگانی ہے کوئی صدمہ ضرور پہنچے ...

    مزید پڑھیے

    نہ چھیڑ شاعر رباب رنگیں یہ بزم ابھی نکتہ داں نہیں ہے

    نہ چھیڑ شاعر رباب رنگیں یہ بزم ابھی نکتہ داں نہیں ہے تری نواسنجیوں کے شایاں فضائے ہندوستاں نہیں ہے تری سماعت نگار فطرت کے لحن کی راز داں نہیں ہے وگرنہ ذرہ ہے کون ایسا کہ جس کے منہ میں زباں نہیں ہے اگرچہ پامال ہیں یہ بحریں مگر سخن ہے بلند ہمدم نہ دل میں لانا گمان پستی مری زمیں ...

    مزید پڑھیے

    تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے

    تبسم ہے وہ ہونٹوں پر جو دل کا کام کر جائے انہیں اس کی نہیں پروا کوئی مرتا ہے مر جائے دعا ہے میری اے دل تجھ سے دنیا کوچ کر جائے اور ایسی کچھ بنے تجھ پر کہ ارمانوں سے ڈر جائے جو موقع مل گیا تو خضر سے یہ بات پوچھیں گے جسے ہو جستجو اپنی وہ بیچارہ کدھر جائے سحر کو سینۂ عالم میں پرتو ...

    مزید پڑھیے

    قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

    قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن ...

    مزید پڑھیے

    ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو

    ظالم یہ خموشی بے جا ہے اقرار نہیں انکار تو ہو اک آہ تو نکلے توڑ کے دل نغمے نہ سہی جھنکار تو ہو ہر سانس میں صدہا نغمے ہیں ہر ذرے میں لاکھوں جلوے ہیں جاں محو رموز ساز تو ہو دل جلوہ گہہ انوار تو ہو شاخوں کی لچک ہر فصل میں ہے ساقی کی جھلک ہر رنگ میں ہے ساغر کی کھنک ہر ظرف میں ہے مخمور ...

    مزید پڑھیے

    ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے

    ادھر مذہب ادھر انساں کی فطرت کا تقاضا ہے وہ دامان مہ کنعاں ہے یہ دست زلیخا ہے ادھر تیری مشیت ہے ادھر حکمت رسولوں کی الٰہی آدمی کے باب میں کیا حکم ہوتا ہے یہ مانا دونوں ہی دھوکے ہیں رندی ہو کہ درویشی مگر یہ دیکھنا ہے کون سا رنگین دھوکا ہے کھلونا تو نہایت شوخ و رنگیں ہے تمدن ...

    مزید پڑھیے

    اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے

    اپنے میں جو اب بھولے سے کبھی راحت کا تقاضا پاتا ہے حالات پہ میرے کر کے نظر دل مجھ سے بہت شرماتا ہے الجھن میں یکایک ہوتی ہے دم رکتا ہے دل بھر آتا ہے جب کوئی تسلی دیتا ہے کچھ اور بھی جی گھبراتا ہے آرام سرکنے والا ہے کس شے پہ یہ غرہ ہے تجھ کو دنیا یہ بدلنے والی ہے کس چیز پہ تو اتراتا ...

    مزید پڑھیے

    صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا

    صبح بالیں پہ یہ کہتا ہوا غم خوار آیا اٹھ کہ فریاد رس عاشق بیمار آیا بخت خوابیدہ گیا ظلمت شب کے ہم راہ صبح کا نور لیے دولت بیدار آیا خیر سے باغ میں پھر غنچہ گل رنگ کھلا شکر ہے دور میں پھر ساغر سرشار آیا جھوم اے تشنۂ گل بانگ نگار عشرت کہ لب یار لیے چشمۂ گفتار آیا شکر ایزد کہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

    دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی ہر طرف دیکھ لیا جب تری صورت دیکھی آئے اور اک نگۂ خاص سے پھر دیکھ گئے جبکہ آتے ہوئے بیمار میں طاقت دیکھی قوتیں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھیں مجھے پھر بھی ڈرتے ہوئے میں نے تری صورت دیکھی محفل حشر میں یہ کون ہے میر مجلس یہ تو ہم نے کوئی دیکھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5